About This Blog

Friday, July 13, 2018

راحت کے انتظار کا روگ





 کہانی شروع معلوم نہیں کہاں سے ہوئی تھی لیکن جب ہماری پہلی ملاقات ہوئی تو میری عمر ٢٣ برس تھی. فیضان کو اسکول داخل کرائے ابھی ایک ہفتہ ہی گزرا تھا، اور ہم دونوں ماں بیٹا اس تجربے سے نڈھال تھے. اگر ابا میاں کی ناراضگی کا ڈر نہ ہوتا تو شاید اس پہلے دن کے بعد میں وہاں قدم بھی نہ رکھتی جب تعارفی امتحان کی لیے لیجائے جاتے ہوئے فیضان  اس قدر بلک بلک کر رویا تھا کہ قے سے اسکے نئے جوتے اور ایڈمیشن آفس کا قالین لتھڑ گئے تھے. ابا میاں کی طبیعت تھی ہی ایسی. انکا ڈر ایسا ہی تھا. دیمک کی طرح کھا جانے والا. 

میں نے گھر کی ملازماؤں کو، آس پڑوس کی رہنے والی کتنی ہی پڑوسنوں کو، رشتے داروں کو، اشاروں کنایوں میں اپنا تمسخر اڑاتے دیکھا تھا. عرفان کی خود ساختہ جلا وطنی میری موجودگی ختم نہیں کروا سکی تھی، میری اولاد بھی ابا میاں کو انکی اولاد واپس نہیں دلوا سکی تھی. یہ ایسی شکست تھی جسکے بطن سے صرف خوف ہی جنم لیتا ہے. سانس لیتا، ڈھرکتا، ہر ہر سانس میں گونجتا خوف. 

خوفزدہ انسان سے ملے ہیں آپ کبھی؟ ایسے خوفزدہ انسان سے جو اپنے خوف کے اظہار سے بھی خائف ہو؟ خوف کی وجہ کا بیان ممکن نہ ہو، تو ایک ڈرے ہوئے انسان کے پاس اظہار کی عیاشی نہیں رہتی. بہادری کا نقاب اوڑھنا پڑتا ہے. میں نقاب اوڑھتی تھی. بھنچی ہوئی مٹھیوں کے ساتھ کھل کر مسکراتے ہوئے. 

ہماری پہلی ملاقات ہوئی تو میری عمر ۲۳ برس تھی. مجھے یہ نقاب اوڑھتے ہوئے چھے برس ہوگئے تھے. سترہ سال کی دلہن کو چھوڑ کر سہاگ بدیس سدھار جائے تو پھر سولہ سنگھار تو ویسے ہی نہیں کر سکتی تھی. اسکا کمال یہ تھا کہ اس  نے مجھے اس نقاب کے باوجود دیکھ لیا. آپ میں سے یہ کتنے لوگوں کے ساتھ ہوا ہے کہ کوئی اپ سے مخاطب ہو اور آپکو اچانک یقین آ جاے کہ وہ نہ صرف آپکے لفظ سن رہا ہے بلکہ وہ آپکی بات سمجھ رہا ہے، آپکو دیکھ رہا ہے. شفاف. مجھے راحت جبیں سے بات کرتے ہوے یہی محسوس ہوا تھا. اس کے گہرے سانولے چہرے پہ اسکی اندر کو دھنسی ہوئی آنکھیں دمکتی تھیں. چہرے پہ پہلی نظر میں صرف وہ آنکھیں ہی دکھتی تھیں. انکی چمک اسکے ناک میں سجے چاندی کے لونگ سے بھی زیادہ تھی. بس صرف اسکا قہقہہ تھا جو اسکی آنکھوں سے بھی زیادہ گونجدار تھا. 

اس روز میں چھٹی سے کوئی گھنٹہ بھر پہلے ہی اسکول پہنچ گئی تھی. دل عجیب بیقرار تھا. سستا سا پرائیوٹ اسکول تھا. گھر کے باقی بچے تو گاڑی میں قدرے دور واقع بڑے اور مہنگے اسکول میں جاتے تھے، مگر فیضان کا حساب ابا میاں باقی بچوں کے ساتھ نہ رکھتے تھے. "یوں بھی،" انہوں نے مجھے دلیل دی، "تمہاری تسلی رہے گی اگر قریب کا کوئی اسکول ہوا تو." میں نے کیا اعتراض کرنا تھا. 
چوکیدار وغیرہ کوئی تھا نہیں سو میں گیٹ کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو گئی. راحت وہاں پہلے سے کھڑی تھی. کچھ دیر وہ مجھے خاموشی سے دیکھتی رہی اور پھر اپنا چھلی کا بھٹا میری طرف بڑھا دیا. یہ ہماری پہلی ملاقات تھی. 

وہ بھٹا آج ۲۵ سال بعد بھی کبھی کبھی میرے ہاتھ میں آنچ دے اٹھتا ہے.

راحت جبیں مجھ سے پانچ سال بڑی تھی. اسکی تین بیٹیاں تھیں اور وہ ہمارے محلے کی نہ تھی. اسکا تعلق میاں چنوں سے تھا. میرا میکہ بھی پنجاب میں رہ گیا تھا. میکہ کیا تھا ... ماموں اور چچا کے عسرت زدہ گھر تھے جنکے درمیان گِلی بنے میرا یتیم بچپن گزرا تھا. ہم دونوں ہی حیدرآباد کی گرد اڑاتی دوپہر میں اپنی اپنی یاد کے سبز پنجاب کا سایہ اوڑھ لیتے. 

راحت محنت کش تھی اور پراندے بنا کر بیچتی تھی. چند دن میں ہی ہم آپس میں گھل مل گئے. اگرچہ ہم دونوں ہی اپنے اپنے گھر والوں کا زیادہ ذکر نہ کرتے تھے، پر پھر بھی کچھ باتیں شاید صوت اور سماعت کے تعلق کی محتاج نہیں ہوتیں. راحت کے لفظ کروشیے کی نئی نئی بنت کی بات کرتے اور اس کے جسم پر روز کوئی نیا نیل اسکے میاں کے چھوٹے پن کی کہانی سناتا. اس کے اونچے قہقہے میں مجھے اسکے آنسوؤں کی نمی بگھو دیتی. شاید یہی انکہے دکھ کی سانجھ ہمارا رشتہ بن گئی. 

ایک روز فیضان کو لے کر اسکول سے واپس گھر پہنچی تو ماحول میں عجیب کشیدگی تھی. چھوٹا دیور عزیز کڑے تیور لیے مجھے بلانے آیا. ساس، امی جان کے کمرے میں کچہری لگی تھی. 
"پوچھیں ان سے. آج بھی اسی کے ساتھ اسکول سے بڑی سڑک تک آئیں ہیں." وہ گرجا. 
امی جان نے اسے باہر جانے کو کہا اور اسکے بعد مجھے بہت رسان سے بتایا کہ راحت کو اسکا میاں آج سے آٹھ سال پہلے ایک کوٹھے سے بھگا کر لایا تھا. وہ ایک کسبی ہے اور ایک شریف عزتدار گھرانے کی بہو ہونے کے ناطے میں اس سے دور رہوں. "عزیز کا خون بہت گرم ہے. وہ پہلے ہی اپنے سب دوستوں کے آگے شرمندہ ہے کہ اسکی بھابھی ایک رنڈی کی سہیلی ہے." امی جان نے اپنے پان کی گلوری منہ میں رکھ کر بات جاری رکھی. "آج تو میں نے سمجھا بجھا لیا ہے، آئیندہ تمہیں اسکے ساتھ دیکھ کر وہ غیرت میں آ کر کیا کر بیٹھے، میں کچھ نہیں کہہ سکتی. تم بھی نہیں چاہو گی کہ بات عرفان کے ابا تک پہنچے." 

میرے کان سن ہو گئے. 

سہاگن وہی جو پیا من چاہی، یہ تو سب بتاتے ہیں. مگر جو پیا من نا چاہی گئی ہو، اس روگن کا حال کوئی نہیں لکھتا. معلوم ہے کیوں؟ کیونکہ ایسے روگ کو لفظ سمو ہی نہیں سکتے. بےوقعتی صرف برتی جاتی ہے، بیان نہیں کی جاتی. 

سو، یہ میرا روگ تھا: انتظار کا روگ. اور اس روگ کی پاداش میں میری زندگی رہن رکھی گئی تھی. فیصلہ سنا دیا گیا تھا. 

اگلے دو دن میں نے فیضان کو اسکول سے چھٹی کرائی. تیسرے دن صبح وقت سے پہلے ہی اسے اسکول چھوڑ آئی. میں راحت کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی. امی جان کے جملے پورا دن میرے کانوں میں رہ رہ کر گونجتے رہے. چھٹی کے وقت تک میں خوف سے نڈھال ہو چکی تھی. 

وقت گزرنے کے بعد اسکول پہنچی، یقین تھا کہ اب تک اسکول خالی ہو گا. صحن میں جھولے پر فیضان ہاتھ میں فراسٹ جوس کا ڈبہ لیے بیٹھا چسکیاں بھر رہا تھا. "امی دیکھیں، راحت خالہ نے مجھے جوس لیکر دیا."
میں نے بھونچکا ہو کر اسکی انگلی کے اشارے کی سمت دیکھا. راحت اپنی بیٹیوں کے ساتھ درخت کے نیچے بیٹھی میرا انتظار کر رہی تھی. مجھے دیکھ کر اسکی چمکیلی آنکھیں مزید روشن ہو گئیں. "فیضان اکیلا تھا"، اس نے جیسے وضاحت دی اور مسکراتے ہوئے اٹھی. اس سے پہلے کے وہ میری طرف آگے بڑھتی میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، فیضان کا ہاتھا تھاما اور اسے باقاعدہ گھسیٹتے ہوئے گلی کو دوڑ لگا دی. 

راحت جبیں مجھے آوازیں دیے گئی مگر میں نے ایک نہ سنی. "آئیندہ تمہیں اسکے ساتھ دیکھ کر وہ غیرت میں آ کر کیا کر بیٹھے، میں کچھ نہیں کہہ سکتی،" کی گونج میں ہر آواز دب گئی. جب ہم گھر پہنچے تو فیضان اور میری دونوں کی حالت ابتر تھی. 

مگر خوشی اس بات کی تھی کہ ہم دونوں زندہ تھے. کم از کم آج کوئی غیرت مجروح نہیں ہوئی تھی. 

اس شام ابا میاں کو فالج کا دورہ پڑا. تین دن ہسپتال میں رہ کر وہ چل بسے. یہ گھر ابا میاں کی جنبشِ ابرو پر چلتا تھا. مانو سب تلپٹ ہو گیا. عرفان ابا میاں کے جنازے پر بھی نہ آئے.

ابا میاں کے چالیسویں تک گھر کی سب عورتوں کا باہر نکلنا بند ہو گیا. کبھی کبھی مجھے لگتا سوگ کی رسمیں بنانے والے کبھی کسی دکھ سے گزرے نہیں ہیں. دکھ تو رگوں میں بہتا ہے ... دورانیے کی قید سے بےنیاز. یہ عام تعطیل نما نمائشی غم تو عجیب بھونڈا مذاق ہے. 

خیر، فیضان کا اسکول جانا بھی چھٹ گیا. 

ابا میاں کے چالیسویں کے بعد امی جان نے فیصلہ کیا کہ اب ہم حیدرآباد نہیں رہیں گے. امی جان کا سارا میکہ کراچی رہتا تھا، ہم بھی وہیں اٹھ آئے. زندگی کا ایک اور نیا دور شروع ہو گیا. حیدرآباد پیچھے رہ گیا.

چار سال بعد سب سے چھوٹی نند شگفتہ نے ایف اے پاس کیا تو حیدرآباد کے پرانے ہمسائے سے اسکے لیے رشتہ آیا. بات چیت آگے بڑھی اور ہم رسم کرنے انکی طرف گئے. واپسی پر گلی کا نکڑ مڑتے ہوئے میں بےطرح ایک برقعہ پوش عورت سے ٹکرا گئی. 
"اندھی ہی رہنا!" امی جان بڑبڑائیں. ادھر میں گنگ ہوئے ٹکر ٹکر اس نقاب پوش عورت کی آنکھیں دیکھے جا رہی تھی. 
"راحت جبیں!" میری آواز گلے میں ہی گھٹ گئی. راحت ہنسی. اب اس ہنسی میں پہلے والی آب تاب نہ تھی. "مجھے پتہ تھا ایک دن تم ضرور آؤ گی. میں نے بڑی راہ دیکھی ہے تمہاری."
اچانک پھوٹ پڑنے والی خوشی خوف کی گرفت میں آ گئی. میں نے گھبرا کر پہلے امی جان کی طرف اور پھر بے اختیار پیچھے مڑ کر دیکھا. عزیز کا چہرہ دیکھ کر میرا خون خشک ہو گیا. وہ غیرت میں آ کر کیا کر بیٹھے؟ 
میں نے راحت کا استخوانی ہاتھ جھٹکا، "معاف کرو بی بی. میں تمہیں نہیں جانتی!" اسکی آنکھیں جو اب پہلے سی روشن نہ رہی تھیں، تاریک ہو گئیں. امی جان نے مجھے آگے کو دھکیلا اور ہم دونوں اس کے پاس سے گزر گئے. میری سینے میں ایک مزید پھانس اور پشت میں پھر سے ہیرے کی دو انیاں گڑ گئیں. 

ہم کراچی لوٹ آئے. 

میں آپکو بتاؤں کہ رہن رکھی گئی زندگی کا احوال کوئی کیوں نہیں لکھتا؟ اس لیے کہ ضبط کی حکایت نہ رنگین ہوتی ہے نہ حسین. بے رنگ تسلسل کا ایک بہاؤ. لوگ ہیجان زدہ جذبات کی رنگارنگی سے محظوظ ہوتے ہیں. میرے جیسی زندگیاں تو بس ہست کے کینوس پر کسی دھندلے پسِ منظر جیسی حیثيت رکھتی ہیں. کیا جینا، کیا دوستیاں نبھانی! 
میں خود کو خود ہی صفائیاں دیتی رہی. 
محبت سے شرابور اس آواز کی پرسوز کھنک "مجھے پتہ تھا ایک دن تم ضرور آؤ گی" رہ رہ کر مجھے بے چین کر دیتی. 

دو ماہ کے اندر اندر شگفتہ اپنے گھر کی ہوگئی. وہیں حیدرآباد میں اسکا بیاہ ہوا. شادی کے هنگام میں کتنی ہی بار میں نے راحت کا سوچا. اگر وہ کہیں پھر سے ٹکرا گئی تو کیا میں پھر انجان بن جاؤں گی؟ خود کو اسکی پکار کا مزید کتنا مقروض کروں گی؟ سوچوں نے مجھے بےکل رکھا. دن گزر گئے.

کوئی چار مہینے ہی گزرے تھے کہ شگفتہ کی ساس بستر سے جا لگیں. پورا گھر شگفتہ پر آ پڑا. امی جان نے مجھے گرہستی سنبھالنے حیدرآباد بھیج دیا. انکا خیال تھا کہ شادی کے بعد اتنی جلدی شگفتہ سے لہسن پیاز کی باس آنے لگی تو میاں کے دل میں پھر وہ ہمیشہ بو ہی دیتی رہے گی. اپنی پیٹ کی جنی تھی نا، اسکے لیے تو یونہی سوچنا تھا.

چند دن نئے گھر کا انتظام سمجھنے اور سنبھالنے میں لگ گئے. جب حواس بحال ہوئے تو ایک دن میں ہمت کر کے سودا خریدنے کے بہانے راحت کے محلے چلی آئی. اسکے گھر کے تھڑے پر اسکی سب سے چھوٹی بیٹی جھاڑو لگا رہی تھی. پھٹے ہوئے کپڑے. الجھے بال. برا حال.

"گڑیا؟" میں نے بےیقینی سے پکارا. 
بچی نے پلٹ کر مجھے دیکھا. 
"بیٹے راحت ہے گھر پر؟"
اس نے نفی میں سر ہلایا. 
"کب آئے گی؟"
"امی تو مر گئی."

مجھے باقی گفتگو نہیں یاد. کچھ کینسر کا ذکر تھا. باپ کی دوسری شادی کا ذکر تھا. 

میں واپس لوٹ آئی. 

دکھ تو رگوں میں بہتا ہے ... دورانیے کی قید سے بےنیاز. میری رگوں میں بھی پچھلے اکیس برس سے "ایک دن تم ضرور آؤ گی" کی کھنک بہہ رہی ہے. یہ میرا روگ ہے: راحت کے انتظار کا روگ.




Photograph by Sidra Tul Muntaha Shahid on pixelsDOTcom

No comments: