About This Blog

Tuesday, March 14, 2017

مستاں



اس کٹیا سے ھر شام اٹھتی دھویں کی لکیر کو میں نے زندگی کا استعارہ کب سمجھنا شروع کیا، شاید مجھے خود صحیح اندازہ نہیں ہے۔ ہاں مگر چناروں کی اس وادی سے انسیت میں گندھے کچھ ہی احساس تھے، اور ھر روز عصر کے قریب دور اس تنہا کٹیا کی کوکھ سے بلند ہوتی دھویں کی کمزور لکیر ان میں سے ایک تھی۔
میری تبدیلی اس پہاڑی علاقے میں میری اپنی درخواست پر ہوئی تھی، بالکل ویسے جیسے کوئی دونوں ہاتھوں میں کلہاڑی تھام کر بصد شوق اپنے پاؤں پر دے مارے۔  ڈاک کا محکمہ ہمارے ہاں اتنا ہی زندہ رہ گیا ہے، جتنا اپنی پود میں سے باقی رہ جانے والا خاندان کا کوئی بزرگ۔ ہر سانس اس خدشے کے ساتھ کھینچتا ہوا کہ کہیں زور زیادہ لگ گیا تو یہی سانس آخری نہ بن جائے ۔۔۔ دوائیوں کے جال میں جکڑی لمحہ بہ لمحہ معدوم ہوتی زندگیاں ہم سب نے دیکھی ہیں۔ ایسے کسی دھندلے پڑتے رستے کو اپنی منزل بنا لینا کہاں کی عقلمندی ہے؟ مگر اس وقت تو میرے سر پر جنون سوار تھا۔ میں بھاگ جانا چاہتا تھا۔ ہر یاد سے، ہر  جذبے سے، ہر حقیقت سے۔ 
اب صورتحال یہ تھی کہ جس خاموشی میں چھلانگ اس لئے لگائی تھی کہ وہ میری سب شوریدہ سوچوں کو نگل جائے  وہ اب ہر سوچ کی تصویرکشی کے لئے جیسے کینوس بن گئی تھی۔ ہر خیال، ہر سوچ کی گونج اس خاموشی میں پہلے سے بھی بڑھ کر تھی اور قطرہ قطرہ میری روح سلب کر رہی تھی۔  خود سے فرار کے متلاشی کو آپ آئینے کے سامنے کھڑا کر دیں تو وہ کتنے سکھ میں ہو گا؟ بس اتنے ہی سکھ کی کیفیت میں میں تھا۔ 
اس روز دفتر کی رسمی کاروائی بھی نمٹانے کا یارا نہ تھا۔ وحشت روز سے بھی کچھ سوا تھی۔ سو ڈیڑھ بجے ہی ڈاک دفتر کو تالہ لگا کر باہر نکل آیا۔ اس ویرانے میں در آنے کی وجوہات میں سے ایک یہ بھی تھی کہ یہاں ڈاک کی سلطنت کا میں مختارِ کل تھا۔ میں ہی پوسٹ ماسٹر، میں ہی ڈاکیا، میں ہی چوکیدار۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی نے کبھی ایسی خدائی کا حال نہیں لکھا جہاں مسجود تو ہو، کوئی ساجد نہ ہو ۔۔۔ جہاں خالق ہو، مگر خلق نہ ہو۔ دوئی نہ ہو تو یکتائی کی پہچان کیسے ہو؟ سچ پوچھیں تو یہیں آ کر میری خدا سے لگی برسوں کی ضد میں کچھ کمی آئی  تھی ۔۔ اس تنہا ذات کا دکھ کچھ کچھ سمجھ آنے لگا تھا۔ نارسائی کا روگ تو بلیک ہول ہے، ثابت بندہ نگل جانے والا روگ۔ تو وہ جو ازل سے اکلاپا کاٹ رہا ہے، اس کا درد تو میرے آپکے دکھوں سے کہیں بڑھ کر ہوا نا؟ بندے کو کہتا ہے یہ راہ پکڑ، مجھ سے آن مل۔ میں یہ دوں گا، وہ دوں گا، بس پریتم آن مل! بندہ کہتا ہے، چل ہٹ، ابھی وقت نہیں ھے میرے پاس۔ پھر کسی دن آؤں گا، دنیا سے فارغ ہو لوں تو آؤں گا۔ ادھر دنیا کسی شاطر بیسوا کی طرح اپنی طرح داریوں کا جال یوں بچھائے رکھتی ہے کہ خدائی کی  راہ پکڑنے والا دن کسی روز نہیں آتا۔ خدا ماضی میں کہیں پیچھے رہ جانے والی محبت کی طرح پیچھے رہ جاتا ہے۔ زندگی آگے نکل جاتی ہے۔ آپ نے بھی تو ایسی پیچھے رہ جانے والی کتنی محبتیں کی ہوں گی۔ ایسی محبت رات کے پچھلے پہر جاگ اٹھنے والے داڑھ کے درد کی طرح تکلیف دہ ہوتی ہے، مگر آپ اس درد کے گرد طواف کرتے زندگی نہیں گزارتے۔ درد اٹھا ہے، تھم بھی جائے گا، آپ خود کو یہی بتاتے ہیں۔ خدا پھر وہیں یاد کے بوسیدہ طاق میں دھرا رہ جاتا ہے۔ 
بات کہاں سے کہاں نکل گئی. سو میں بتا رہا تھا اس دن کی وحشت کا حال جب کھلے آسمان تلے بھی سانس گھٹ رہا تھا۔ میں اضطرابی کیفیت میں بن دیکھے بس اونچے نیچے پہاڑی رستوں پہ لڑھکتاجا رہا تھا۔ اندر کا دھواں پاگل کئے دے رہا تھا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد عنبر کی ہنسی کی آواز کان میں گونجتی، اور مانو جیسے ہر بار حد نظر تک ہر منظر سرخ آندھی میں گم ہو جاتا۔ معلوم نہیں اس دیوانگی میں کتنی دیر گزری تھی کہ میں نے اپنے آپ کو بابا ہوجا کے ساتھ بیٹھے پایا۔ بابا ہوجا ایک ملنگ تھا۔ دیوانہ مجذوب جس کو غیر ضرورتمند لوگوں کے بالکے ڈر کر پتھر مارتے تھے، اور ضرورتمندوں کے بالکے ڈر کر روٹی پکڑانے آتے تھے۔ ضرورت کی اپنی منطق، اپنی سائنس ہوتی ہے۔ خوف کے اپنے ضابطے ہیں۔ میں تو کہتا ہوں کسی انسان کی اصل دیکھنی ہو تو اسکے سب لفظ، سب گیان، سب خوشی غمی چھوڑ دو، صرف اس کے خوف دیکھو، اپنے خوف سے وہ کیسے بھڑتا ہے، وہ دیکھو! سو، بابا ہوجا وہ تھا ۔۔۔ کسی کے خوف کا دارو، کسی کے خوف کی وجہ۔ ملنگ آدمی تھا۔ عموماً  اپنے آپ میں ہی مگن رہتا تھا۔ ہر منگل کی شام بابا دربار لگاتا تھا۔ دربار کیا تھا، ایک قصہ گو کی منڈلی تھی۔ سارا گاؤں ہی اکٹھا ہو جاتا اور بابا اپنا "مستاں ہو جا، مستاں ہو جا” کا جاپ چھوڑ کر ایک اور ہی منظر بن جاتا۔ کبھی کوئی بولی بولتا، کبھی کوئی نامانوس سی بھاشا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کہانی پھر بھی ساری سمجھ آ جاتی۔ وہ جیسے اوپیرا کا کہتے ہیں ناں؟ بابا ہوجا کا اپنا اوپیرا تھا۔ چہرہ کہانی سناتا جاتا، لفظ سمجھ میں نہ آنے والی تال دیتے۔ لوگ کبھی ہنس پڑتے، کبھی تالیاں پیٹتے، اور کبھی سسکیاں بھرتے ناک پونچھتے جاتے۔
میرا دل نہیں لگتا تھا اس تماشے میں کہ میں منطق کا آدمی ہوں۔ ہوجا کا ٹیلنٹ اپنی جگہ، میں کبھی اس محفل میں شریک نہ ہوا تھا۔  دن میں بابے ہوجا کا دفتر مختلف جگہ لگتا تھا۔ کبھی کمیٹی کے دفتر کے باہر، کبھی رمجو صراف کی دکان کے ساتھ، کبھی بسم اللہ ٹی سٹال کی دیوار کے ساتھ۔ آج وہ یہاں پہاڑی اترائی پر آسن جمائے بیٹھا تھا۔ لیکن میں یہاں کیوں بیٹھا تھا؟  کچھ دیر اپنے تذبذب پر  قابو پانے کو میں یونہی بےمقصد سامنے پھیلے چناروں کے جنگل کو دیکھے گیا۔ ہوجا پہاڑی پتھر سے ٹیک لگائےخاموش بیٹھا تھا۔ لیکن اس کی گہری نگاہ میرے اوپر ہی جمی تھی۔ اس کے گندے بوریے کی باس اور نگاہ کی تیزی، دونوں میں شدت کی کاٹ تھی۔ معلوم نہیں اس لمحے کی تاثیر تھی یا میرے لاشعور کی کارستانی، مگر مجھے اس خاموش دوپہر میں، پتھریلے رستے کے بیچوں بیچ گھنے درخت کے سائے تلے چپ سادھے بابا ہوجا کے پاس بیٹھے کوئل کی کوک کی طرح متواتر کوکتی ایک مدھم "مستاں ہو جا۔ مستاں ہو جا” سنائی دیئے جا رہی تھی۔ ابھی بھی، یہ منظر بیان کرتے ہوئے میں واضح طور پہ وہ آواز سن رہا ہوں!
میرے اندر خوف سوڈے کی بوتل کے اندھے ابال کی طرح اٹھا۔ میں نے بھاگنے کو اپنی ٹانگیں سمیٹیں کہ بابا ہوجا کا ھاتھ میرے کندھے پر آ رکا۔ "بھاگتا رہے گا تو جیئےگا کب؟” کھنک داراور بڑی جوان آواز تھی بابے ہوجا کی۔ میں نے ٹیڑھی آنکھوں سے پھر اسکا جائزہ لیا۔ ہوجا ہلکا سا ہنسا۔ "میں بتیس کا نہیں ہوں، تو ہے۔ میں کسرت نہیں کرتا، تو کرتا ہے۔ میں مرضی کے ٹھکانے پہ نہیں، تو ہے۔ میں دیوانہ، تو ہوشمند ہے ۔۔۔ تجھے مجھ سے کیا خوف ہے؟ اتنے جی دار وجود میں کتنے اندیشوں کی بستیاں بسائی ہوئی ہیں تو نے پگلے! ایسے کون جیتا ہے؟”
میری سانس میں زرا سانس آئی ۔ بازو کو ہلکا سا جھٹک کے میں نے ہوجا کی شکل کو پہلی بار بغیر نظر چرائے دیکھا۔ لمبے بالوں کی لٹیں منہ پر جھول رہی تھیں اور گرد اور دھوپ کے رنگ کاٹ تلے اصلی رنگت کہیں دب چکی تھی۔ ہاں آنکھیں ایسی چمکدار تھیں کہ یک دم خیال بچوں کے قنچوں کی طرف جاتا۔ مقناطیسی قنچے۔ بدرنگی، بےڈھنگی مونچھوں تلے ہوجا کے ہونٹ مسکرائے، آنکھیں ویسی ہی رہیں۔ "تیرا مسئلہ یہ ہے بابو تجھے لگتا ہے ہر الجھن ایک مسئلہ ہے اور ہر مسئلے کا کوئی حل ہے۔ تو حل تلاشتا پھرتا ہے۔ کھوج، ٹرک کی بتی ہے اور تو اس کے پیچھا لگا نمانا۔”
"ہر الجھن مسئلہ ہے تبھی تو حل ڈھونڈتا ہوں۔ جس چیز کا حل ہو، وہ تو مسئلہ نہیں ہوتی!” میں بوکھلا کر خوامخواہ دفاعی انداز اختیار کر گیا۔
ہوجا نے ہنکارہ بھرا، میرے چہرے پر جمی نظر  اتنی دیر میں پہلی بار ہٹائی اور چادر جھاڑ کے کھڑا ہو گیا۔ وہ اگے پھیلے چناروں کے سبز جنگل کو دیکھ رہا تھا۔ "تو ڈاک بابو ہےنا۔ تیرا دھیان صرف چٹھی پر ہے۔ اسکی ٹکٹ، اس کے لفافے پر ہے۔ تو مکتوب نگار کو نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا۔ وہ مجلس آرائی کو رنگ رنگ کا سندیسہ بھیجتا ہے، کبھی تیرا دل لبھانے کو، کبھی تجھے بلانے کو۔ کبھی کیسا کبھی کیسا مکتوب بھیجتا ہے۔ تو ہونقوں کی طرح لفافے کی ٹکٹ اور مہر کے چکر میں ہی رہ جاتا ہے۔ گاڑی ہر بار نکل جاتی ہے۔ تیری ہر وحشت کسی نوبیاہتا بیوہ کی طرح واپس خالی ہاتھ تیرے صحن میں آ بیٹھتی ہے۔ کبھی خط لکھنے والے کی طرف تو نظر کر۔ کبھی تو کوئی مسئلہ نہیں، سندیسہ سمجھ کے دیکھ۔ مورکھ کبھی تو خود پر سے مان کم کر۔ کبھی تو مستاں ہو جا!”
"خود پہ مان کی کیا بات ہے اس میں؟ اللہ نے دماغ دیا ہے، نہ سوچوں کچھ؟ پاگلوں کی طرح بس نعرے لگاتا پھروں؟” میں باقاعدہ تپ گیا تھا۔ 
بابے ہوجا کو پتہ نہیں میرے تپنے پر اتنی ہنسی کیوں آئی۔ بے ساختہ جو ہنسنا شروع ہوا تو ہنستے ہنستے دوہرا ہو گیا۔ نیچے بھیڑوں کے غلے کو ہنکارتے سنبل خان نے حیرت سے اوپر کی طرف ہمیں دیکھا اور پھر اپنی چھڑی لہرا کر آوازہ لگایا۔ ہوجا نے آگے سے اونچی آواز لگائی "مستاں ہوجا سنبل خاناں!”
"پاگل” میں بڑبڑایا۔
"دیکھ بابو۔” ہوجا میری طرف پلٹا۔ "یہ جو ساری حیاتی ہے، یہ جو سب ہست اور نیست کی گیم ہے۔ تو میں، ہم سب اس کے مہرے ہیں۔ تم سب چھوڑ دو۔ اپنے منطقی دماغ سے سوچو اور مجھے بتاؤ شظرنج کا مہرہ کتنا گیم کو سمجھ سکتا ہے؟ گیم بورڈ، مہرے کی بساط سے بڑی چیز ہے۔ جب تک مہرے کو اپنی حیثیت کا ادراک نہیں ہو گا مہرہ کبھی ادھر، کبھی ادھر بھٹکتا پھرے گا۔ ہر بار پٹے گا۔ کیوں کہ وہ مہرہ ہے۔ وہ کھلاڑی نہیں ہے۔”
"بہت اعلیٰ۔ پھر حل کیا ہے؟ دماغ نکال کر عجائب خانوں میں حنوط کروا دیئےجائیں؟ سوچ، خیال سب پر پابندی ہے۔ تیرا کھلاڑی جس تفکر تفکر کی رٹ لگائے رکھتا ہے، وہ سب ڈھکوسلا ہے؟"
"دل ٹوٹنے تو دے، مورکھ!
دل ٹوٹے گا نہیں تو رستہ کہاں سے بنے گا، روشنی کے جھانکنے کو درز کہاں سے ملے گی؟

اقبال یونہی نہیں کہتا


تُو بچا بچا کہ نہ رکھ اسے، تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ​

جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں


جو تو ٹوٹنے ہی نہ دے گا، اس کی حفاظت کا خوف تیری زندگی کا مالک ہو گا۔ اپنے خدا کو دیکھ جانی! شرم کر۔ 

غم سنبھال۔ کہ کچھ گہرائی پال سکے۔ گہرائی آئے گی، تو اس میں کچھ سمانے قابل بھی ائے گا۔ کب تک سایوں کی طرح ٹو-ڈی زندگی جیے گا؟

ہوجا نے زمین سے ایک پتلی چھڑی اٹھائی اور ڈھلتے سورج کی روشنی سے کھیلتے سائے کے گرد لکیربنانی شروع کر دی۔ "تمہیں پتہ ہے کھوکھلے پن کی سب سے بڑی نشانی کیا ہوتی ہے؟” ہوجے کا ٹریک پھر بدل چکا تھا۔
"کیا ہوتی ہے؟”
"کھوکھلا پن ابلتے جذبات کے لبادے میں چھپتا ہے۔ چھلکن، جتنا بھرپور ہونا ظاہر کرتی ہے، اتنا ہی کھوکھلےپن کی پسندیدہ نقاب ہے۔ جس بات پہ تیرا خون جوش مارے، ہر اس بات پہ جو تجھے غصے سے بےقابو کر دے، ایک سیکنڈ کو رک کے دیکھ لے کہ یہ چھلکن ہے یا ابلتا خالی پن۔” میری طرف چھڑی بڑھا کر ہوجا بولا، "شطرنج کے مہرے کو جب تک اپنی حیثیت کا ادراک نہیں ہوگا، وہ خود کو کھلاڑی سمجھے بیٹھا رہے گا۔ نتیجتاً ہر بار جب کھلاڑی کا ہاتھ اس کو اپنی گیم میں اپنی مرضی سے چلائے گا، مردود مہرہ اپنی خوش نصیبی پہ نازاں ہونے کی بجائے خود اپنی مرضی کرنا چاہے گا۔ مہرہ، مہرہ ہے۔ مہرہ ڈوور نہیں ہے، ڈن اپون ہے۔ مہرہ سبمٹ کرنے، سرنڈر کرنے کو جب تک اپنی معراج نہیں مانے گا۔۔۔ مہرہ عبد نہیں بن پائے گا۔ کھوتیا، جہاں معبود ہو اور عبد خود کو عبدیت کے مقام سے خود محروم رکھے، معبود کی شان کو اس سے فرق پڑے گا یا کمبخت عبد کے بھاگ سوئے رہیں گے؟”
"عبد کے بھاگ۔” میں بےساختہ بولا۔
"ڈاک بابو۔ تیرا میرا رب جو ہے نا وہ اکیلا ہے۔ اسے تیرے میرے اقرار کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ ہے۔ اس نے میلہ سجا دیا ہے۔ وہ تماشا ہے۔ تماشابین ہے۔ تو میں پارٹ آف دا گیم ہیں بس! ہر خط کی مہر کریدنے نہ بیٹھ جایا کر۔ ہر الجھن خط ہے ،مکتوب نگار کو پہچان، اس نے رابطہ کیا ہے۔ ناز کر۔ سرور میں رہ ،شکر کر ،مسئلہ نہ بنا۔ مسئلہ صرف وہ ہے جسے تو مسئلہ بنا لے، باقی سب تو رابطے کی سبیلیں ہیں۔ یاد کی چوکھٹیں ہیں۔ انکو اپنی سولی نہ بنا، وہ رابطہ کرتا ہے، اس کا تار پکڑ۔”
میرا دل بھر آیا۔  بہت سارے برسوں کی تھکن جیسے اس ڈھلتی دھوپ کی تھکن سے بھی سوا ہو گئی ہو۔ 
ہوجا نے میرے ہاتھ میں ڈھیلے سے پکڑی چھڑی واپس لی اور میری پسلی میں چبھوئی۔ 
"تو اس کٹیا کے دھویں کو دیکھ بابو۔ وہ تیرے لئے زندگی کا استعارہ ہے۔ اس سرمئی لکیر سے تجھے زندگی کا تعلق محسوس ہوتا ہے۔ جو تو سمجھتا نہیں ہے وہ بات یہ ہے کہ سب منظر، سب رشتے، سب حقیقتیں صرف وہ ہیں جو تیرا گمان تجھے کہے۔ تیرا گمان اس کٹیا سے اٹھتے دھویں کو زندگی کہے گا تو وہ تجھے ہمیشہ زندگی کی علامت لگے گا۔ تیرا گمان تجھے یہ دھواں عذاب کی علامت کے طور پہ دکھائے تو تو ہمیشہ اس میں عذاب ہی کا احساس پائے گا۔ عنبر کی اپنے خیالوں میں گونجتی ہنسی کو تو اپنے لیے تمسخر کا چابک بنا لے، یا اسکی آگے بڑھ جانے کی چائلڈ لائک ایکسائٹمنٹ کا اظہار۔ تیری مرضی ہے۔  بس مہرے کا اختیار یہیں تک ہے۔ اور یہی وہ اختیار ہے جو اتنا بڑا ہے کہ سیانے سے سیانا مہرہ سنبھال نہیں پاتا۔”
میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتا رہ گیا.
تم کون ہو؟
مجھے کسی کنویں کی تہہ سے اپنی آواز سنائی دی.
بابا ہوجا کی قنچہ آنکھیں پہلے سے زیادہ دمک اٹھیں۔ وہ آگے بڑھا اور میرے کان میں سرگوشی کی "مستاں ہو جا!”
پس منظر میں کٹیا سے اٹھتی دھویں کی لکیر بلند ہو چلی تھی۔


**یہ کہانی لینہ ناصر کی جانب سے دانش ویب سائٹ کے لیئے لکھی گئی**