About This Blog

Friday, January 26, 2018

سوال



تم نے سرما کی پہلی بارش کو محسوس کیا ہے کبھی؟ اس کے نرم بوسے کی حدت کو اپنے اوپر پگھلتے سہا ہے؟ تم نے موتیے کی ادھ کھلی کلی کی ضدی بغاوت دیکھی ہے کبھی؟ ملائمت میں گندھی ننھی کلی ایسی سرکش کہ چٹکے بنا رہ نہ پائے، دیکھی ہے؟ تم نے شب کی سیاہی کو صبح کی گود میں سمٹتے دیکھا ہے کبھی؟ رات کی تیرگی کی انگڑائی کو سحر کے دامن میں ٹوٹتے نظاره ہے؟

سوال تو محض بات کا بہانہ ہیں ورنہ جواب کی حاجت نہیں ہے. اصل آیت تو سوال کے پیچھے چھپے رمز میں ہے. وہی غرض ہے، وہی غایت. وہی مدعا، وہی منشاء. وہی مطلوب، وہی مقصود. اور یہی وہ راز ہے جو جب کسی خوش بخت سوالی کے دل پر کسی صحیفے کی طرح القاء ہوتا ہے، سوالی ششدر رہ جاتا ہے. سوال تو عطا کا پیمانہ ہیں. جس دل کو نصیب ہو جائیں وہاں محجوب کے کشف کا امکان پیدا ہوتا ہے.

مانو تو زندگی کو اپنے شمس کی انتظار گاہ نہ بناؤ. زندگی کو اپنے لیے قونیہ بنا لو. گواہ بننے دو اسے اپنی دلیل کے جلال کا، اور پھر اپنے عشق کے جمال کا. قونیہ میں رومی اصلی ہوگا تو شمس بھی در آئے گا، یہ ایمان سانسوں کی مالا پہ سمر لو. سلگن بھاگوان کو عطا ہوتی ہے، خود کو اسکی بےتوقیری کر کے کم ظرف نہ ثابت کرنا. رومی بننا سہل نہیں ہے، شمس کے جلوے کی آس میں یہ نہ بھولنا کہ تمنا اور اہلیت کے مابین پل صراط حائل ہے.

کیا میرے اور تمہارے دل کے بیچ بھی یہی پل صراط ہے؟



Image Credit: Dance Painting - Painting 716 2 Sufi Whirl 2 by Mawra Tahreem