About This Blog

Saturday, March 31, 2018

Your Name


In all the languages you speak,
in all those I remember,
No word contained the texture of kiss. 


Of all the ages you've traveled,
of all the times I've existed,
No moment froze the scent of lilac.

Under all the nights, through all the days,
In maps traversing land and milky ways
No star shone so bright
like the sun that rises
every night when I make my home
along the shores of your heart beat.
There, nestled under the open skies
of mating want and surrender,
At the cusp of divinity and earthiness,
I smell Lilac.
I say your name.

- leenah.

Wednesday, March 21, 2018

معبد تراش لیں ہم، معبود کی تلاش میں



ڈسٹرکٹ بہاولپور کی تحصیل حاصل پور کی یونین کونسل جمال پور میں جمال بس نام کا ہی ہے۔ موسم کے اعتبار سے علاقہ سراسر جلال ہے۔ گرمی کے موسم میں تو مانو سورج اس فراوانی سے برستا گویا خود دھرتی کے سینے میں سما جانا چاہتا ہو۔ یہ تو بھلا ہو صدیوں سے رواں ستلج کے ظرف کا، اسکا دامن گرمی سے بلبلائے ہوؤں کے لیے ایک آسرا رہتا ہے۔

مون سون میں البتہ ستلج کے تیور بگڑ جاتے ہیں۔ اسکا سینہ، جھکے ہوئے کندھوں والے چرن داس کی آنکھوں جتنا بھر آتا۔ کناروں سے موج در موج آ کر ٹکراتا نمکین پانی چھلکنے کو بپھرا ہوتا، لیکن چرن داس کی آنکھوں سے بند ستلج کے بھاگ میں کبھی نہیں رہے، سو وہ چھلک جاتا ہے۔ حدود قیود کی ترتیب سے غافل۔ اپنے بپھرے جذبات کے ساتھ ستلج پھر ایک جنوں جولاں گدائے بے سروپا کی طرح نکل پڑتا ہے۔ بستیاں اجاڑتا، آبادیاں روندتا۔

سوچتے سوچتے ادھیڑ عمر چرن داس نے جھرجھری لی۔ وہ درگا دیوی کا پجاری ضبط کی منڈپ کا مرتبہ سمجھتا تھا۔ قوت کے قاعدے کلیے کے سبھی ضابطے یہ بتاتے ہیں کہ تیر وہی کارآمد ہوتا ہے جو ابھی چلنے کو دستیاب ہو۔ بچپن میں اپنی ماں سے اس نے یہی ایک سبق سیکھا تھا۔ ضبط کے ترکش کو پر رکھنے کا۔ کتنی سخت زندگی کاٹی تھی اسکی ماں نے۔ اناتھ پیدا ہونے والے چرن داس نے تمام عمر ماں کے ھاتھ خالی اور آنکھیں بھری ہوئی دیکھیں تھی۔ ایسا نہیں تھا کی دنیا میں انکا کوئی نہیں تھا۔ کوئی بڑا خاندان نہ سہی، مگر جمال پور کی اس بستی میں وہ، اسکی ماں، چاچا، چاچی اور انکے چھ بچے کل مل کر دس ہندو جی ابھی بھی باقی رہ گئے تھے۔ اچھا بھلا چھوٹا سا جتھا، گر سوچنے پہ آؤ تو۔ مگر مرتبے کی تفریق جب جوش کی بنیاد پہ ہونے لگے، تو ہوش والوں کے لیے صرف گند سمیٹنا ہی رہ جاتا ہے۔ چرن داس کی ماں اور چرن داس کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ پچھلوں کے وقت کا ایک مندر گزری تہزیب کی علامت کے طور پر باقی رہ گیا تھا۔ دونوں ماں بیٹا کسی گناہ کی طرح اس کھنڈر سے ملحقہ تاریک کوٹھڑی میں دھکیل دیئے گئے۔ سال پر سال بیتتے گئے اور بستی میں کلمہ گو آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ چرن داس کا کنبہ سکڑتا گیا۔ ماں چل بسی اور اسکے دو سال بعد چاچے کا بھی کریا کرم ہو گیا۔ چاچی نے اپنے بچے پروں میں سمیٹے اور اپنے بھائیوں کے پاس بہاولنگر چلی گئی۔ بہاولنگر میں آج بھی ہندومت کے نام لیواؤں کی بڑی آبادی تھی۔

پیچھے رہ گیا چرن داس۔ کچھ جی دھرتی پر پیچھے رہ جانے کے لئے ہی اترے ہوتے ہیں۔ جیسے کسی بھی بلاک بسٹر فلم میں نامی گرامی کتنے ہی فنکار ہوں، فلم ایکسٹراز کے بغیر پوری نہیں ہوتی ۔۔۔ بالکل ویسے ہی اس دنیا کے مالک کا نظام ہے۔ کچھ انسان صرف ایکسٹراز کا کردار لکھوا کر آئے ہوتے ہیں۔ بے نام چہرے، بے زبان ہست۔ بستی میں بےضرر چرن داس لڑکپن سے نوجوانی، نوجوانی سے جوانی، جوانی سے ادھیڑعمری کی سیڑھیاں ایسے ہی بےمکالمے کردار کی خاموشی سے چڑھتا گیا۔

بستی کی گلیوں میں جھاڑو پھیرتے پھیرتے کب اسکا اپنا سر ملگجا ہوگیا، کسی کو پتہ نہ چلا.

بستی میں کچے مکان اب پہلے سے کم تھے. آبادی بڑھ گئی تھی. گھر بھی اب زیادہ تر پختہ تھے اور دل بھی اب زیادہ پتھریلے تھے. چرن داس پڑھا لکھا نہیں تھا. وہ توشاید شعور کے کسی کلیے کے بھی حساب سے صاحب رائے ہونے کا اہل نہیں تھا۔ لیکن شکرکہ وہ خود یہ بات نہیں جانتا تھا۔ زبان کبھی کھولتا ہی نہ تھا کہ کسی اور کو خبر ہوتی کہ چرن داس بھی چپکے چپکے سوچ کا روگ پالتا ہے اور یہ کہ ایسی حرکت کی کما حقہ بیخ کنی کی ضرورت پڑتی۔ ۔ سو اس کے گونگے خیال میں جیسے جیسے بستی کی مسجد کا صحن پھیلا تھا، ویسے ویسے نمازیوں کے ایمان کی بنیادیں کمزور پڑی تھیں۔ پہلے اسکو دیکھ کر ان دیکھا کر دینے والے اب اس پر نگاہ پڑنے سے اپنا اسلام ناپاک ہو جانے کی شکایت کرنے لگے۔ مردود ہندو۔ اوپر سے منحوس۔ اوپر سے ایک آسیب زدہ مندر میں بدروحوں کے ساتھ جانے کس کس طرح کی بد مستیوں میں مگن رہتا ناپاک جی ۔۔۔ یہ سب کیا کم تھا کہ جمال پور کے بس سٹیشن کے پیچھے واقع کچرا کنڈی سے کسی کا پھینکا ہوا گناہ بھی اٹھا کر لے ایا۔ ایک کہرام ہی تو مچ گیا تھا۔ مسجد کے امام صاحب جو بڑی مرتبہ دبے دبے الفاظ میں یہ عندیہ دے چکے تھے کہ انکے خیال میں مسلمانوں کی اس آبادی میں ایک مندر کی عمارت، بمع اپنے اکلوتے وارث کے، کسی بھی طرح جواز نہیں رکھتی تھی؛ اب کھل کر میدان میں اترے. مسجد کی نالی سے گندگی سمیٹتا چرن داس خاموشی سے سنے گیا.

اس جمعے جب جمال پور کے فرزندان توحید ہفتے میں ایک بار حاضری کی رشوت لے کر رب کی بارگاہ میں پیش ہوے تو مولوی صاحب نے سب کو آڑے ہاتھوں لیا. انکی نمازیں انکے منہ پر دے ماریں اور انکی سب دعاؤں کو آسمان سے دھتکارے جاتے بھی دیکھ لیا. بات میں دم بھی تھا. اب کون مورکھ اس بات کا منکر ہو سکتا تھا کہ بستی میں گناہ کی ایسی کالک پل رہی ہو تو بھلا کونسی دعا آسمان تک جا سکتی تھی۔ ہر دعا تو چرن داس کی گندگی کی سیاہی نگل لیتی تھی. امام صاحب نے رمضان سنار سے پوچھا کہ اسکے گھر اب تک اولاد نہ ہونے کی وجہ اسے سمجھ نہیں اتی. امام صاحب نے ایکسین ریٹائر ہو کر گاؤں میں ا بسنے والے ریاض الدین سے پوچھا کہ انکو اب تک پتہ نہ چلا کہ اللہ نے انکا جوان جہاں بیٹا کس لیے ان سے چھین لیا ۔ چوھدری اشرف کی چار بھینسیں اس برسات میں سانپ کاٹے سے مر گئی تھیں. اسکو کیوں نہ وجہ سمجھ آئی؟ امام صاحب کا گلا رندھ گیا. اللہ اپنی ناراضگی کا اظہار کیے چلا جا رہا تھا اور یہاں کوئی کان دھرنے کو ہی تیار نہیں تھا۔

“کیا چاھتے ہو تم سب، میں اکیلا ہی تم سب کی غفلت کا بوجھ اٹھائے رکھوں یا تم لوگوں نے کچھ خود بھی کرنا ہے اس بستی کو پاک کرنے کے لیے؟“ مولوی صاحب دھاڑے۔

سب مومنین کا دل اور اسلام لرز گیا.

ایک طرف ایک ملیچھ لاوارث، دوسری طرف رب کائنات۔ اپ خود بتائیں کس کا ساتھ دینا انصاف ہوتا؟

عشاء تک چرن داس کا مندر عرق گلاب سے دھل چکا تھا. صفایاں ہو گئی تھیں۔ جالے اتار دیے گئے تھے۔ مورتیوں کے کندہ نقوش پہ ایمان والوں نے سفیدی پھیر دی تھی. چرن داس اور اسکا گود لیا گناہ کا ڈھیر گاؤں سے باہر پھینک دیے گئے تھے. قوت ایمانی کا ایسا مظاہرہ بہت سے دلوں کو گرما گیا تھا۔ رمضان سنار کے کانوں میں تو مانو ننھے بچوں کی کلکاریاں ابھی سے گونجنے لگیں تھی. پارسائی ایسا ہی نشہ ہے. تیز اور گہرا۔

عشاء کے بعد امام صاحب نے اکابرین سے مشورے کے بعد اعلان کیا کہ سوموار سے مندر ڈھانے کا مرحلہ شروع ہو گا اور اگلے جمعے کو اس جگہ مدرسے کا سنگ بنیاد مولوی صاحب خود رکھیں گے ۔ مدرسے کا نام چوهدری اشرف کے نام پر مدرسہ اشرف رکھا جائیگا۔ چوهدری صاحب نے کسر نفسی سے ایسا کرنے سے بار بار منع کیا، اور ہر بار مولوی صاحب کی معاملہ فہمی کی تعریف بھی کی. سب چوهدری صاحب کی منکسر المزاجی کے قائل ہو گئے۔

سوموار کو تکبیر کے نعروں کی گونج میں مندر ڈھانے والوں میں منہ پر ڈھاتا باندھے چرن داس بھی تھا. اسے پہچان لیا گیا اور پکڑ کر مسجد میں کوتوالی کے لیے پیش کر دیا گیا۔ مولوی صاحب بہت جزبز ہوئے. یہ معاملہ اچھا بھلا نمٹ چکا تھا. انہوں نے چبا چبا کر چرن داس کو ادھر سے غائب ہو جانے کو کہا.

چرن داس انکے قدموں میں آ بیٹھا. 
اسکا سر انکے پاؤں کے انگوٹھوں پہ ٹک گیا.

“مائی باپ، میں تو سب پاپ ہوں ۔ مگر اب جب اپ اپنے اللہ کو ادھر لا کر بسانے لگے ہو تو میں ساتھ مزدوری کرنا چاہتا ہوں. اپ مجھے بس اس کے بدلے اتنی اجازت دے دو کہ جب وہ بڑا ہو میں اپنے بچے کو مدرسے بھیج سکوں.“

“پاگل ہوئے ہو داسے؟“ مولوی صاحب پاؤں جھٹک کر گرجے.

چرن داس گھگھیاتے ہوئے پھر انکے پاؤں کی طرف لپکا۔

“اس پورے علاقے میں اور کوئی بھرشٹ مذھب نہیں ہے میرے سرکار۔ وہ بچہ مسلمان ہے. اس سے اسکا رب نہ لو. میں مندر اکیلے ہی گرا دوں گا. کوئی مزدوری نہیں مانگوں گا. بس اس بالکے کو اپنا اللہ دے دو میرے مالک۔“

کہنے والے کہتے ہیں مسجد سے اس دن جب چوهدری اشرف کے بندے چرن داس کو لے کر گئے تو اس کے بعد ڈسٹرکٹ بہاولپور کی تحصیل حاصل پور کی یونین کونسل جمال پور میں وہ کبھی کسی کو نظر نہیں ایا. وہ پہلے بھی ان دکھا رہتا تھا، سو اب کیا فرق پڑنا تھا ۔

جمعے کو مدرسے کا سنگ بنیاد رکھا گیا. مولوی صاحب کے چہرے پر ایک پر اعتماد مچھیرے کی سی رونق تھی. 
رات انہوں نے اپنے بیٹے کو سانگھڑ تار بھیجا:

“اللہ نے رزق کا بندوبست کر دیا ہے ۔ اب تمہیں پردیس میں خوار ہونے کی چنداں ضرورت نہیں. فورا چلے آؤ۔“

رب ایک اور عمارت میں قید ہو گیا تھا۔



**یہ کہانی لینہ ناصر کی جانب سے اس بلاگ کے علاوہ دانش ویب سائٹ پر بھی چھپ چکی ہے**

Image: "Seek and you shall find", by Mobeen Ansari


ہم



بنجر روحوں کے اجاڑ کواڑوں میں گونجتے سناٹے،
واہموں کی طویل راہدریاں
اور خوف کے معبد،
سسکتی ہوئی شورشیں
ٹوٹتی ہوئی چوکھٹیں
مٹتی ہوئی نقش کاریاں،
بانجھ منتوں کے امین
سوالی کے نصیب کی طرح ... خالی
لوٹ آتی ہو گی بن کر بازگشت اپنی ہی ہر صدا
کہ ہم، یزداں کے رہین، رحمان کے فرستاده،
خدا کو ہم یہاں بسنے کی اجازت نہیں دیتے

- لینہ ناصر


Image: Gori Mandir, near Nagarparkar, Sindh, Pakistan; captured by wizard with the lens, Mobeen Ansari.