About This Blog

Tuesday, October 10, 2017

اے عشق ازل گیر و ابد تاب






روزِ گذشتہ نظر محمد (ن م) راشد کی برسی تھی. جدید اردو ادب میں راشد کا مقام کچھ ایسا ہے کہ اردو کا دامن خود آگے بڑھ کر "حسن کوزہ گر" سے لپٹتا ہے، خود اسکی نظر اتارتا ہے، بلائیں لیتا ہے. اور کیوں نہ لے! حسن کوزہ گر نے اردو نظم کے عاشق اور محبوب کو باہم یوں ملایا ہے کہ مجازی رفعت کی منزلیں طے کرتا حقیقی کی سطح پر معتبر ہو گیا. 
تخیل کا اسیر ایک غمزدہ دیوتا، جس کا وجود ایک کہربا رات سے پیوست ہے ... جس کی قدرت جہاں زاد کی آنکھوں کی تابناکی سے جڑی ہے.


This is a thread documenting a few of my favourite Noon Meem Rashid poems. Please add to this whatever this magician of a poet fascinated you with. He is the poet of exile. You can feel the grief, the longing, the calling of a distant love chanting like wind chimes in his words. You can hear the echo of his yearning borne by the beautifully knitted Persian and Urdu. And you can always find yourself swept away by the charisma of the lover who knows the art of adoration



************************************************************

کونسی الجھن کو سلجھاتے ھیں ھم؟

لب بیاباں، بوسے بے جاں
کونسی الجھن کو سلجھاتے ھیں ھم؟
جسم کی یہ کار گاھیں
جن کا ہیزم آپ بن جاتے ھیں ھم!
نیم شب اور شہر خواب آلودہ، ھم سائے
کہ جیسے دزد شب گرداں کوئی!
شام سے تھے حسرتوں کے بندہ بے دام ھم
پی رھے تھے جام پر ھر جام ھم
یہ سمجھ کر، جرعہ پنہاں کوئی
شائد آخر، ابتدائے راز کا ایما بنے

مطلب آساں، حرف بے معنی
تبسّم کے حسابی زاو یے
متن کے سب حاشیے،
جن سے عیش خام کے نقش ریا بنتے رھے!
اور آخر بعد جسموں میں سر مو بھی نہ تھا
جب دلوں کے درمیاں حائل تھے سنگیں فاصلے
قرب چشم و گوش سے ھم کونسی الجھن کو سلجھاتے رھے!
کونسی الجھن کو سلجھاتے ھیں ھم؟
شام کو جب اپنی غم گاہوں سے دزدانہ نکل آتے ہیں ھم!
زندگی کو تنگنائے تازہ تر کی جستجو
یا زوال عمر کا دیو سبک پا رو برو
یا انا کے دست و پا کو وسعتوں کی آرزو
کونسی الجھن کو سلجھاتے ھیں ھم؟

رقص

اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے 
زندگی سے بھاگ کر آیا ہوں میں 
ڈر سے لرزا ہوں کہیں ایسا نہ ہو 
رقص گہ کے چور دروازے سے آ کر زندگی 
ڈھونڈ لے مجھ کو، نشاں پا لے مرا 
اور جرم عیش کرتے دیکھ لے! 
اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے 
رقص کی یہ گردشیں 
ایک مبہم آسیا کے دور ہیں 
کیسی سرگرمی سے غم کو روندتا جاتا ہوں میں! 
جی میں کہتا ہوں کہ ہاں، 
رقص گہ میں زندگی کے جھانکنے سے پیشتر 
کلفتوں کا سنگ ریزہ ایک بھی رہنے نہ پائے! 
اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے 
زندگی میرے لیے 
ایک خونیں بھیڑیے سے کم نہیں 
اے حسین و اجنبی عورت اسی کے ڈر سے میں 
ہو رہا ہوں لمحہ لمحہ اور بھی تیرے قریب 
جانتا ہوں تو مری جاں بھی نہیں 
تجھ سے ملنے کا پھر امکاں بھی نہیں 
تو مری ان آرزؤں کی مگر تمثیل ہے 
جو رہیں مجھ سے گریزاں آج تک! 
اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے 
عہد پارینہ کا میں انساں نہیں 
بندگی سے اس در و دیوار کی 
ہو چکی ہیں خواہشیں بے سوز و رنگ و ناتواں 
جسم سے تیرے لپٹ سکتا تو ہوں 
زندگی پر میں جھپٹ سکتا نہیں! 
اس لیے اب تھام لے 
اے حسین و اجنبی عورت مجھے اب تھام لے!


AND, OF COURSE, Hassan Kooza Gar

مگر ایک ہی رات کا ذوق دریا کی وہ لہر نکلا 
حسن کوزہ گر جس میں ڈوبا تو ابھرا نہیں ہے!