About This Blog

Monday, June 4, 2018

سوں تیری سوہنیاں


[part i of this story can be found here: Aath pehr ki mazdoori]


“اس وحشت سے بھاگا کیوں پھرتا ھے؟“
“کیا کھو گیا ہے تیرا؟“
“کس کی کھوج میں بولایا ہوا ہے؟“

کرخت آواز ایک اینٹ کی طرح اسکی سماعت سے ٹکرائی۔ گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے وہ سُن سا ہو کر رہ گیا۔ ایک ڈیژا وو سا ہوا تھا۔
اسے یوں محسوس ہوا گویا یہ آواز اس نے پہلے بھی کہیں سنی تھی۔ جیسے یہ لمحہ کبھی پہلے بھی کہیں اسی طرح اندھی گولی کی مانند آ ٹکرایا تھا۔ زماں اور مکاں کی اس قید سے زرا پرے، جیسے یہ پورے کا پورا منظر اسی طرح بیتا تھا، گلبرگ کے اس مشہور کمپیوٹر سینٹر کے باہر؛ گرد اڑاتے، بلبلاتے مئی کی چلچلاتی گرم دوپہر میں ۔۔۔ جیسے وہ پہلے بھی اس کھردری آواز سے خار آلودہ ہوا تھا۔

دھوپ سے چندھیائی نگاہ جو اٹھی تو سامنے کھڑا شخص دِکھا. عجیب الہئیت سا شخص۔ اس کے چہرے پہ عمر کے بہت سے دور، مغرب کے وقت باہم ملتے صبح اور شام کی طرح مدغم ہو رہے تھے؛ سر پر نماز والی ٹوپی کسی گناہگار کے نامئہ اعمال کے سے رنگ کی تھی؛ کندھے پر دھرا ایک ڈبیوں والا رومال ماضی کی کسی گنجلک پہیلی سے جیسے ابھی بھی پیوست تھا۔ اسکی نظر بے ارادہ اسکے سراپے پر پھسلتی چلی گئی. بے ڈھنگی، بد رنگی سی ملگجی شلوار قمیض اس کے بے ہئیت سے جثے پہ اتنی ہی مس فٹ تھی جتنا اسکی چمچماتی گاڑی کی چمکیلی سطح پر اسکا عکس۔

ناگواری کی لہر اس کے اندر سے اٹھی، اور شمال سے اٹھنے والی آندھی کی طرح ذہن کو بے طرح گدلا کر گئی۔

"جاہل!"
"ہٹو آگے سے!"

اپنی آنکھوں پہ دھوپ کا بیش قیمت چشمہ واپس ٹکاتے ہوئے اسکی آنکھیں ان قنچے جیسی آنکھوں سے چار ہو گئیں. ایک لمحے کو یوں لگا جیسے اسکا پاؤں بجلی کی ننگی تار کو چھو گیا ہو. کرنٹ کی ایک شوریدہ لہر تھی جو اسکے رگ و پے میں بلند ہوتی پتنگ کی ڈور کی طرح پھر گئی. کاٹ دار.

جیسے اُسکی نگاہ کی اِسکے ذہن میں بننے والے سوچ کے مد و جزر تک رسائی ہو، وہ شخص زیرِلب مسکرایا.

"الجھ کیوں گیا ہے؟ پُٹھے پاسے رخ نہ موڑ. تیرا رستہ اُدھر نہیں جاتا!"

بنا سوچے اسکے منہ سے پھسلا، "کدھر؟"

وہ شخص قریب جھک آیا. پسینے کی تیز ہمک اسکی حسیات کو جھنجھوڑ گئی. سرکش بُو کے ناگوار احساس کی بُکل مارے پیچھے پیچھے ایک سازشی سرگوشی بھی تھی:

"جدھر کی جوت تجھے بے کَل رکھتی ہے، سسیے بے خبرے!"

وہ خاصا نفیس آدمی بالکل ششدر رہ گیا. "وٹ دا ..."

ایسے جیسے اُس نے سنا ہی کچھ نہیں، وہ ذرا سا پیچھے ہوا. کندھے پر پڑا رومال اتار کر جھاڑا اور ٹوپی پھر سے سر پر جمائی. اور پھر اِس کے بھونچکے چہرے کو بغور دیکھتے یوں مسکرایا کہ اگر کوئی حلیوں کی نظر آنے والی حقیقت سے نظر چرا سکتا تو یہی کہتا کہ اس جوگی کی مسکراہٹ ہمدردی سے لبریز تھی.

حقیقت کا مسئلہ یہی ہے. کوئی منظر کو حقیقت مانتا ہے. کوئی ناظر کو. اور کوئی نظر کو. ہم ممکن کی قید میں اتنے محدود ہیں کہ حقیقت کا تعارف بس اتنا ہی منقسم ہے.

"مت دیکھ تماشا اتنی دیر. اتنی دیر میلہ دیکھنے رک گیا تو بھنبھور لُٹ جائے گا!"

اس کے ہاتھ میں تھامے فون کی ہلکے سے ارتعاش سے لرزش ہوئی … ایک لحظے کو جیسے کوئی سحر ٹوٹا، سب معمول کو لوٹ آیا. اس نے فون کی جانب دیکھااور ہاتھ پھر سے گاڑی کے دروازے کی طرف بڑھایا.

وہ گنگنایا

اُس بے پرواہ دی اِس عادت
ساڈا حال تباہ کر چھڈیااے
جد وعدہ کر کے نہیں آندا
سانوں تارے گنائی رکھدااے

'جانے دیں مجھے، میں وہ نہیں ہوں جسے آپ ڈھونڈ رہے ہیں.' آواز میں اب طمطراق نہ تھا، الجھن تھی.

'جھلیا، ڈھونڈ تو تو رہا ہے، ڈھولن ماہی کو. جھوک رانجھن کی طلب تو تجھے بےکل رکھتی ہے. اپنی پکار کی بازگشت سہہ سکتا تو اندر کا خالی پن اتنا گونجتا نہ ہوتا تیرا.'

اسکے ماتھے پر دمکتے پسینے کی بوندیں اب باقاعدہ برس رہی تھیں.

'آپ مجھ سے کیا چاھتے ہیں؟' لہجے میں لجاجت سی جھلکی.

وہ مزدور فقیر قہقہہ لگا کر ہنسا یوں جیسے کوئی لطیفہ سن لیا ہو .

'ابے او ناکارہ! تُو دے کیا سکتا ہے کسی کو؟ ہے کیا تیرے پاس؟ تیری سب سے بڑی مصیبت ہی یہ ہے … تجھے درک ہی نہیں اپنی غربت کا.
تُو مجھے ایک فالتو سانس جتنی ہوا دے سکتا ہے؟ میرے اس پسینے کو واپس موڑ سکتا ہے؟ تُو مجھے میرے متعین رزق سے فالتو ایک لقمہ دے سکتا ہے؟ بتا! تُو مجھے کچھ نہیں دے سکتا میرے بابو. مسئلہ یہ ہے کہ تیری غربت تیری کثرت کے پردے میں چھپی ہے، میری عسرت کی طرح ننگی نہیں ہے.
تُو جو دیتا ہے، جو دے گا، وہ کسی کے لیے نہیں، تیری اپنی ڈیوٹی کی ادائیگی کے لیے ہے. تیری دینے کی اہلیت تیری آزمائش ہے.'

وہ بولتے بولتے چپ ہوا. اس نے نظریں گھما کر ارد گرد دیکھا. کیا اس پاس دنیا کو یہ بےتکا میل ملاپ دکھائی دے رہا تھا. عمارت کے نوجوان چوکیدار کو اس طرف متوجہ دیکھ کر اس نے بیساختہ سکون کا سانس لیا.

'ڈر سے جان چھڑا لے. یہ تجھے اگے نہیں بڑھںے دیگا. ابلیس کو اپنی برتری چیلنج ہونے کا ڈر نہ ہوتا تو وہ کبھی راندۂ بارگاہ نہ ہوتا.'

زن سے کوئی گاڑی پاس سے گزری. غبار کا بادل سا اٹھا.

'ڈر سے جان کیسے چھڑاتے ہیں؟' اسکی آواز جیسے کسی کنویں کی تہہ سے آئی.

'ہستی کو مارکے.' وہ رسان سے بولا.

'نیستی میں بڑا سکھ ہے. لامحدودیت ہے. غربت امارت کے جھگڑے نہیں ہیں. قدر و جبر کا فساد نہیں ہے. کھو جانے کا اندیشہ نہیں ہے. کسی اور کا انتظار نہیں ہے.'

اسکا کھردرا ہاتھ اسکے کندھے پر آ ٹکا، اس نے قریب جھک کراسکی مضطرب آنکھوں میں جھانکا.

'اور سب سے بڑی آزادی یہ ہے کہ تیرا واحد حوالہ ہی تیری برات ہے. بس. ابھی تیری روح ہست کے بار تلے عاجز آئی ہوئی ہے. نیست کی بے وزنی کے لیے تڑپتی ہے. تیرا نشان بے نشانی کی کھوج میں ہے. تُو راستے کی رکاوٹ بننا بند کر دے. سب خیر ہوجائے گی.'

'آپ کون ہیں؟'

کھڑ کھڑ کرتا ایک رکشہ ساتھ آ رکا. وہ جواب دئیے بغیر دلچسپی سے سواری کو اترتے دیکھتا رہا اور پھر ایک آخری بھرپور نظر اس پر ڈال وہ لپک کر رکشے میں جا بیٹھا.
رکشے کے ریڈیو پر نصرت کی آواز اپنے مخصوص سوز کے ساتھ گونج رہی تھی:

جتھے ہے ہکو، ذات حق دی اے
میری ذات کوئی نئی، تے صفات کوئی نئی
بھلا خاک نمانی نے بولنڑا کی
بنا یار بولے ہوندی آواز کوئی نئی
باقی یار میرا، میں تے ہاں فانی
میری ہور اس توں کرامات کوئی نئی
تینوں فیر دیوانیاں کی دساں
میری صفت کی اے؟ جیہڑی ذات کوئی نئی

سوں تیری سوہنیاں تویوں ای ایں

1 comment:

Habib said...

https://www.youtube.com/watch?v=RhNcIEaHUmM