**The writing prompt had been: A line picked from any of Gulzar's verses as the opening sentence.
Following is what I wrote.**
چنگاری اک اٹک سی گئی میرے سینے میں ... ایسی برفاب خنکی تھی اسکی نگاہوں میں. ہمارے درمیان الفاظ کا رشتہ تو کچھ عرصے سے ویسے ہی کسی قضا فرض جیسا بوجھل ہو چکا تھا، آج یوں محسوس ہوا گویا نظر کا تعلق بھی پل صراط بن گیا ہو.
یہ رشتے، بندھن ویسے کیا ہی گرہیں ہیں. ہم امید کا بل دے دے کر باندھی جاتے ہیں. توقع قربت کا حاشیہ بنے، کسی گرانڈیل پروہت کی ناپاک گرفت کی طرح کب سانس گھونٹ دے، گرہ لگاتے ہوئے کب یہ خیال آتا ہے.
کب خیال آتا ہے کہ خوابوں کا بیوپار کرتے کرتے کہیں ہم آنکھوں میں ریگزار نہ بسا لیں.
اتنا سوچ لیں تو کیا اپنی امیدوں کو خود پا بہ گل نہ کر لیں؟ آس کے پنکھ پنکھیرو ہوا میں اڑانے کا شوق مئے ناب کیطرح مدہوش نہ کردیتا، تو کون آزادی گروی رکھنے پہ یوں مصر رہتا؟
نجانے یہ شکستِ ذات کے لمحہ کی بازگشت ہے یا محض کانوں میں فشارِ خون کی گونج، مگر سنائی یہی دے رہا ہے کہ بندھن باندھنے کے لیے جتنا ظرف چاہیے ہوتا ہے، اسکی آبیاری ہم نہیں کرتے. بارِ امید سہنا، ہم جیسے نوتونگر خداؤں کے بس کی بات نہیں. نہ ہمیں اپنی خدائی کو دوسرے کی توقعات کا تسمہ باندھنا آتا ہے، اور نہ ہی دوسرے خدا کی بارگاہ میں اپنی بےشرط بندگی کا نذرانہ پیش کرنا.
ہمارے مطالبے ہماری قید بن جاتے ہیں.
سوچتے سوچتے میری آنکھیں جلنے لگیں.
میں نے پھر اس کی طرف دیکھا.
.... تھوڑا سا آ کے پھونک دو، اڑتا نہیں دھواں!
چنگاری اک اٹک سی گئی میرے سینے میں
تھوڑا سا آ کے پھونک دو اڑتا نہیں دھواں
- گلزار
Image: paintinting by Henrik Aarrestad Uldalen
No comments:
Post a Comment