تخلیق ہمیشہ محبّت سے پھوٹتی ہے. اس کو محبت ہی پال پوس کر پروان چڑھاتی ہے. پھر یہ محبت ہی کی طرف قدم بڑھاتی ہے اور اسی میں گم ہو جاتی ہے.
لیکن محبت کا دروازہ ان لوگوں پر کھلتا ہے جو اپنی انا اور اپنے نفس سے منہ موڑ لیتے ہیں. اپنی انا کو کسی کے سامنے پامال کر دینا مجازی عشق ہے. اپنی انا کو بہت سوں کے آگے پامال کر دینا عشق حقیقی ہے.
محبت جنسی جذبے کا نام نہیں. جو لوگ جنس کو محبت کا نام دیتے ہیں وہ ساری عمر محبت سے عاری رهتے ہیں. جب محبت اپنے نقطہ عروج پہ پہنچتی ہے جنس خود بہ خود ختم ہو جاتی ہے جنس سے انحراف کر کے یا اسے دبا کر اس سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا جا سکتا. محبت میں اتر کر اس سے گلو خلاصی کی جا سکتی ہے.
محبّت کا سفر اختیار کرنے کے لیے پہلی منزل فیملی یونٹ کی ہے. جو شخص پہلی منزل تک ہی نہیں پہنچ پاتا وہ آخری منزل پر کسی صورت بھی نہیں پہنچ سکتا
فیملی اور کنبے کو قائم رکھنا محبّت ہی کی ذمیداری ہے.
محبّت کے بغیر انسان ایک فرد ہے. ایک ایگو ہے, خالی انا ہے. اس کا کوئی گھر بار نہیں، کوئی فیملی نہیں، اس کا دوسروں کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں، کوئی تعلق نہیں. یہ بے تعلقی یہ نا رشتیداری موت ہے، زندگی تعلق ہے، رشتےداری ہے.
(اقتباس: اشفاق احمد کی کتاب "زاویہ ٣" کے باب "محبت کی حقیقت" کے صفحہ نمبر "٢٣٩" سے)
Quite amusingly it reminded me of my last night's post Life Tiptoed. Out.