میں نے انتظار کرنے والوں کو دیکھا.انتظار کرتے کرتے سو جانے والوں کو بھی اور مر جانے والوں کو بھی. میں نے مضطرب نگاہوں اور بے چین بدنوں کودیکھا ہے.آہٹ پے لگے ہوئے کانوں کے زخموں کو دیکھا.انتظار میں کانپتے ہوئے ہاتھوں کو دیکھا . منتظر آدمی کے دو وجود ہوتے ہیں. ایک وہ جو مقررہ جگہ پر انتظار کرتا ہے، دوسرا وہ جو جسد خاکی سے جدا ہو کر پذیرائی کے لئے بہت دور نکل جاتا ہے. جب انتظار کی گھڑیاں دنوں،مہینوں اور سالوں پر پھیل جاتی ہیں تو کبھی کبھی دوسرا وجود واپس نہیں آتا اور انتظار کرنے والے کا وجود،اس خالی ڈبے کی طرح رہ جاتا ہے جسے لوگ خوبصورت سمجھ کر سینت کے رکھ لیتے ہیں او کبھی اپنے آپ سے جدا نہیں کرتے. یہ خالی ڈبا کئی بار بھرتا ہے، قسم قسم کی چیزیں اپنے اندر سمیٹتا ہے، لیکن اس میں "وہ" لوٹ کر نہیں آتا جو پذیرائی کے لئے آگے نکل گیا تھا .ایسے لوگ بڑے مطمین اورپورے طور پہ شانت ہوجاتے ہیں .ان مطمئن، پرسکون اور شانت لوگوں کی پر سنیلٹی میں بڑا چارم ہوتا ہے اور انہیں اپنی باقی ماندہ زندگی اسی چارم کے سہارے گزارنی پڑتی ہے.یہی چارم آپ کو سوفیا کی شخصیتوں میں نظر آے گا.یہی چارم عمر قدیوں کے چہرے پر دکھائی دے گا اور اسی چارم کی جھلک آپکو عمر رسیدہ پروفیسروں کی آنکھوں میں نظر آے گی.
از اشفاق احمد، "سفر در سفر" سے انتخاب
And life is different when the wait is no more.
No comments:
Post a Comment