داستان گو (اشفاق احمد) از ممتاز مفتی
گزشتہ دو ایک سال سے اشفاق احمد نے بڑی دھوم مچا رکھی ہے۔ وہ جگہ جگہ مجمع لگائے کھڑا ہے۔ ریڈیو پر، ٹی وی پر، محفلوں میں، سماجی گیٹ ٹو گیدر میں عوام اس کے پروگرام کا انتظار کرتے ہیں۔ دانشور اس کے ڈراموں پر بحث کرتے ہیں۔بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ یہ رنگین اور منفرد باتوں کے جال بن کر مجمع لگانے والا درحقیقت گونگا ہے۔ اس کی شخصیت دکھ اور چپ کے تانے بانے سے بنی ہے۔ اس کی بزم آرائی اور زعفران زاری شخصیت کے ان بنیادی عناصر سے فرار کی سعی ہے۔اگر آپ اس کی شخصیت کے بنیادی عنا صر سے واقف ہونا چاہتے ہیں تو اسے اس وقت دیکھئےجب وہ اکیلے میں بیٹھا ہو۔ جب اسے کوئی احساس نہ ہو کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے یا اسے دیکھے جانے کا امکان موجود ہے۔ اگر اسے ذرا بھی شک پڑ گیا تو اس کے اندر کی بنی سجی طوائف خاتون ہوشیار ہو جائے گی۔اکیلے میں اشفاق احمد کے چہرے کے خطوط نیچے کی طرف ڈھل جاتے ہیں۔ پیشانی کی سلوٹیں رینگ رینگ کر باہر نکل آتی ہیں۔ آنکھیں اندھے کنویں بن کر ڈوب جاتی ہیں۔ چہرے پر اکتاہٹ ڈھیر ہو جاتی ہے۔
اشفاق احمد کھاتے پیتے پٹھان گھرانے میں پیدا ہوا۔ بہت سے بھائیوں میں ایک کے سوا سب سے چھوٹا۔ باپ ایک قابل، محنتی اورجابر پٹھان تھا۔
(یہاں کتاب کی تصویر ترتیب کے خلاف یہاں سے شروع ہوتی ہے) ایک روز کیمپ کے ایک ویران کونے میں جب میں حالات کی وجہ سے پریشان کھڑا تھا تو ایک چٹی سفید شگفتگی اور تازگی سے بھرپور مٹیار میرے روبرو آکھڑی ہوئی۔ آنکھیں چمکا کر بولی آپ ممتاز مفتی ہیں۔
جی۔ میں نے جواب دیا۔
ہم نے آپ کی “آپا“ پڑھی ہے۔
بہت اچھا کیا آپ نے۔
بولی۔ میں ساتھ والے کیمپ میں ملازم ہوں۔ کبھی ادھر آئیے گا۔
جی اچھا۔ میں بولا۔
بولی۔ میرا نام اشفاق احمد ہے۔
پہلی بار اسے دیکھ کر ایسے لگاجیسے گلابی مخمل پر سنہرے پھول کڑھے ہوں۔ پھر اشفاق اور میں روز ملنے لگے۔جوں جوں میں اس کے قریب ہوتا گیا، مخمل ٹاٹ میں بدلتی گئی۔ سنہرے پھول، بوٹے ابھرتے گئے۔ طوائف کی پسواج کبھی کبھی کھلنے لگتی۔ اس لئے نہیں کہ اشفاق کے اندر کی طوائف بہت نمایاں تھی، بلکہ اس لئے کہ وہ میرے اندر کی طوائف سے زیادہ بھڑکیلی تھی۔ ہر فنکار میں ایک طوائف ہوتی ہے۔ کسی میں ننگی، کیسی میں ادھ کھلی، کسی میں مستور، مثلاابوالاثر میں بالکل ننگی تھی۔ محمد طفیل میں مستور ہے۔ انتظار میں ادھ کھلی ہے۔ اشفاق میں گھونگھٹ نکال کر سامنے بیٹھی رہتی ہے۔ اس زمانے میں ہم لارنس باغ میں اوپن ایئر تھیٹر میں ملا کرتے تھے۔ اوپن ایئر تھیٹر ذوبی کے قبضے میں تھا۔ ذوبی اشفاق کا دوست تھا اور جانا پہچانا آرٹسٹ تھا۔ ذوبی خوش باش نوجوان تھا۔ انداز میں سنجیدگی تھی۔ بات میں پھلجڑی تھی۔اوپن ایئر تھیٹر میں پہنچتے ہی اشفاق کے اندر کا ڈرامائی نقالیہ باہرنکل آتا۔پھر رنگین باتوں کے سنہرے جال ہوا میں اڑتے۔ نقلیں ممکس، قصے کہانیاں چٹکلے، لطیفے۔ اشفاق احمد تماشا ہوتا اور ہم تماشائی ہوتےاور اوپن ایئر تھیٹر واقعی تھیٹر بن جاتا۔اشفاق احمد ٹیلینٹڈ فنکار ہے۔ اس کی ٹیلینٹ کا مرکز آنکھ اور کان ہیں۔ خصوصا کان۔ وہ مجھ سے زیادہ دیکھتا ہے، زیادہ سنتا ہے۔ اس کا ذہن ہر تفصیل کو ریکارڈ کر لیتا ہےاور اس کا نطق اسے من و عن ری پروڈیوس کر سکتا ہے۔ان دنوں اشفاق احمد ایک لق و دق جزیرے میں رہتا تھا جو رابنسن کروسو کے جزیرے سےکہیں زیادہ ویران تھا۔ اشفاق احمد کا یہ جزیرہ ایک بہت کھلی نیم چھتی تھی جو ایک وسیع و عریض رستے بستے مکان کی اوپر کی منزل پر واقع تھی۔جب بڑے خان گھر پر نہ ہوتے تو نچلی منزل پر اک میلا لگ جاتا۔ شور شرابہ، ہنسی مذاق۔ لیکن نیم چھتی میں ہر وقت ہو کا عالم ہوتا۔ وہاں چاروں طرف کتابوں کے ریک بھرے ہوئے تھے۔ جن میں رنگا رنگ کی کتابیں تھیں۔ ان کے درمیان فرش پر اشفاق احمد یا تو مطالعہ میں مصروف ہوتا اور یا مستقبل کے منصوبے بناتا۔ جاگتے کے خواب دیکھتا۔اس جزیرے کو دیکھ کر میں نے جانا کہ اشفاق احمد صرف دکھ اورچپ نہیں، ازلی اکیلا بھی ہے۔ وہ بذات خود ایک جزیرہ ہے جو کسی کو کنارے لگنے نہیں دیتا۔ جو نہیں چاہتا کہ کوئی اس کی تنہائی میں مخل ہو۔سارا سارا دن وہ کتابوں کے انبار میں بیٹھا رہتا۔ بے نام دکھ کا مارا ہوا۔ بے وجہ چپ تلے دبا ہوا۔ پھر آہستہ آہستہ ساری نیم چھتی ایک عظیم اکتاہٹ سے لبا لب بھر جاتی۔ اس میں ایک وحشت بیدار ہوتی۔ لپک کر وہ سنہرے پھول بوٹوں والا چغہ پہن لیتا۔ چغہ پہنتے ہی چہرے کے زاوئیے اوپر کو ابھر آتے۔ ہونٹوں پر روغنی تبسم کھلنے لگتااور وہ چٹکیاں بجاتا نیم چھتی کی سیڑھیاں اترنے لگتا۔ پھر یہ خوش باش نوجوان اوپن ایئر تھیٹر میں جا پہنچتا۔ وہاں ڈگڈگی بجاتا۔ گھنگھرو چھنکاتا۔ مجمع لگاتا۔ تھیلے سے رنگین باتوں کے جال نکالتا۔ گنگناتا، گاتا، ڈرامے کھیلتا۔ قہقہے لگاتا۔ خود ناچتا دوسروں کو نچاتا۔ لیکن یہ دور زیادہ دیر کے لئے نہیں چلتا تھا۔ اس کے بعد وہی جزیرہ وہی ہو حق۔ وہی دکھ وہی چپ وہی تنہائی۔ وہی اشفاق احمد۔ اس زمانے میں اشفاق کی زندگی اس خاتون کی طرح گذر رہی تھی جو سارا دن ننگے سر ننگے پائوں ان دھلے منہ اور لت پت بال لئے دھوپ میں بیٹھی ہو، نسیان پانے میں لگی رہتی ہواور شام کو ہار سنگھار کرکے پسواج پہن کے طوائف بن جاتی ہو۔پتہ نہیں فنکار کی تخلیق میں قدرت اس قدر اہتمام کیوں کرتی ہے۔ اپاہج بنا کر ناچنے کی انگیخت دیتی ہے۔ گونگا بنا کر باتوں کی پھلجڑی چلانے پر اکساتی ہے۔ پتہ نہیں قدرت ایسا کیوں کرتی ہے۔ مگر یقینأ وہ ایسا کرتی ہے۔اس زمانے میں ایک ویران نیم چھتی میں تنہائی دکھ اور چپ کے بنیادی رنگوں سے قدرت ایک فن کار تخلیق کر رہی تھی۔پتہ نہیں کن وجوہات کی بنیاد پر اشفاق احمد کی شخصیت میں ہفت رنگی عناصر پیدا ہو چکے تھے۔ ایک بے نیاز صوفی بابا۔ رکھ رکھاؤ سے سرشار۔ ایک دنیا دار خودنمائی سے بھرپور ایک خاتون۔ پتھر کا بولتا ہوا ایک دیوتا۔ دوسروں کو نصیحتیں کرنے پر پھبتیاں کسنے والا ایک تلقین شاہ۔ اپنی منوانے والا گھر کا مالک۔ سن کر جذب کر لینے والا ایک عظیم کان۔اشفاق کے والد ایک عظیم شخصیت تھے۔ اتنی عظیم کہ انھوں نے گھر کے تمام افراد کو کبڑا بنا رکھتا تھا۔ جب یہ گلیور گھر ہوتا تو کسی کو دم مارنے کی اجازت نہ ہوتی۔ گھر سے باہر ہوتا تو دھما چوکڑی مچ جاتی۔بیگم اس سوچ میں کھوئی رہتی کہ عجز و ادب احترام اور دنیا داری کا کون سا نیا مرکب ایجاد کیا جائے جس کے زور پر ظل الٰہی کو ڈھب پر لایا جا سکے۔خان منزل میں صرف پٹھان خصوصیات کی قدرو منزلت تھی۔ چونکہ اشفاق ان خصوصیات سے محروم تھا۔ اس لئے گھر میں وہ سب سے چھوٹا بالشتیا تھا۔اشفاق میں انفرادیت کی ایک کلی لگی ہوئی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کوئی انوکھی بات کرے۔ انوکھا کام کرے۔ انوکھی خبر سنا کر دنیا کو حیران کر دے۔ خان منزل میں اس کا یہ جذبہ تشنہء تکمیل رہا۔ دل میں ایک کانٹا لگا رہا۔ رد عمل یہ ہوا کہ اب وہ کسی کو گلیور ماننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ کسی پہلو سے خود کو بالشتیا تسلیم کرنے سے منکر ہے۔اگرچہ وہ اپنی فنکارانہ عظمت کا تذکرہ خود نہیں کرے گا۔ لیکن اس کا جی چاہے گا کہ دوسرا کرے۔ دوسرا کرےتو اشفاق کے چہرے پر پھلجڑیاں چلنے لگیں گی۔ چہرے کے زاوئیے اوپر کو ابھر آئیں گے۔ آنکھوں میں تبسم پھوٹے گا۔کسی دوسرے فنکار کی عظمت کی بات چھڑ جائے تو وہ بات کو کاٹے گا نہیں لیکن ہاں میں ہاں بھی نہیں ملائے گا۔ اشفاق احمد کی شخصیت کے سادھو پن سے مجھے انکار نہیں لیکن اس کی فنکارانہ انا خاموشی کے گھونگھٹ تلے چھپے رہنے کے باوجود بڑی طوطا چشم ہے۔اس جزیرے کی بوجھل تنہائی میں اشفاق احمد نے جو اظہار کا پہلا طریقہ آزمایا وہ مصوری تھا۔ یہ ذوبی سے میل ملاپ کی وجہ سے تھا۔ لیکن کچھ دیرکے بعد اس نے مصوری کو چھوڑ کر ادب کو اپنا لیا۔ اور وہ مختصر افسانے لکھنے لگا۔مصوری کا دور صرف تین چار سال رہا۔ اس کے دو عمل مجھے ابھی تک یاد ہیں۔ پہلے عمل کا نام کال بیل تھا۔ تصویر میں نسائی جسم کا وہ برقی بٹن دکھایا گیاتھا جسے دبانے سے محترمہ رکھ رکھاؤ اور لاج کے پردے چاک کر کے باہر نکل آتی ہے۔تصویر دیکھ کر محسوس ہوتا تھا جیسے باہر نکل آنے والی محترمہ دراصل ایک جن ہو جسے انسانی بوتل میں قید کر رکھا ہو۔دوسرے عمل کا کوئی نام نہ تھا۔ ہوتا تو “دی فالک رومن“ ہوتا۔ تصویر میں عورت دکھائی گئی تھی۔ جس میں جنسی تقاضوں کی گٹھڑیاں کندھوں پر رکھی تھیں۔ اوروہ آرزو کی ان مٹکیوں کو بر سر عام چھلکاتی پھرتی تھی۔پتہ نہیں اشفاق احمد نے عمل نگاری میں جنس کا موضوع کیوں اپنایا۔ چونکہ اشفاق احمد کا جنس سےلگاؤ ضمنی ہے۔جنس کے لحاظ سے مرد کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک وہ جو جذبے کا دریچہ کھولے بغیر جنس کے ایوان میں چہل قدمی کے شوقین ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ کہ جب تک جذبات کا دروازہ نہ کھلے جنس کے خدوخال نہیں ابھرتے۔ اورتیسرے وہ کہ جذبات کی کھڑکی کھل بھی جائے تو بھی جنس سے خفا رہتے ہیں۔ اشفاق احمد تیسرے قسم سے تعلق رکھتا ہے۔ ان دنوں اشفاق احمد کی آرزو تھی کہ شوخ اور طرحدار لڑکیوں کو باتوں کے جال بن کر اپنی طرف متوجہ کرے۔ متاثر کرے۔ جب وہ تاثر سے بھیگ جاتیں تو اشفاق پر گھبراہٹ طاری ہوجاتی کہ “اب کیا ہوگا“۔ اشفاق اب بھی عورت کے قرب سے ڈرتا ہے۔ قریب مت آؤ دور کھڑی ہو کر بات کرو۔لیکن نسائی نفسیات کے مطابق فاصلے نہیں بلکہ قرب محفوظ ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ آگے بڑھنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس اشفاق کے لئے فاصلہ محفوظ تھا۔ اس لئے وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوتا۔ زندگی میں وہ بار بار پیچھے ہٹا۔ الٹے پاوں بھاگا۔ ہونکتا ہوا اپنی نیم چھتی میں پہنچا۔ سچے دل سے باتوں کے جال بننے سے توبہ کی لیکن باتوں کے جال بننے پر مجبور تھا۔ بار بار توبہ ٹوٹی۔حتٰی کہ گورنمنٹ کالج میں وہ محترمہ منظر خاص پر آگئی۔وہ محترمہ بڑی چتر کار تھی۔ اندر سے قدیم اوپر سے جدید۔ اوپر سے سادی اور اندر بن ٹھن ہی بن ٹھن۔ اوپر سے ٹھہراؤ ہی ٹھہراؤ اور اندر جذبات کی ہلچل۔ اوپر ذہن ہی ذہن، اندر دل ہی دل۔ وہ محترمہ دروپدی اور گیشیا کا سنگم تھی۔ وہ محترمہ متاثر ہو کر آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے ہٹنے کی عظمت کو جانتی تھی۔ وہ محترمہ ان مشرقی خواتین میں سے تھی جو پیچھے ہٹنے والوں کو پہچانتی ہیں۔ اور خود پیچھے ہٹ کر انہیں پیچھے ہٹنے کی ندامت سے بچا لیتی ہیں۔بڑے واقعات ہمیشہ چھوٹی بات سے جنم لیتے ہیں۔ایک روز محترمہ برآمدے سے گزر رہی تھی۔ اشفاق نے سوچا کوئی منفرد بات کروں۔ اس نے ہاتھ پھیلا دیا۔ ایک آنہ دیجئے۔ کس لئے، محترمہ نے پوچھا۔ سیگریٹ پیئوں گا۔محترمہ نے اکنی ہاتھ پر رکھ دی۔ فتنہ فساد کے ایوان کی بنیاد میں پہلی اینٹ رکھ دی گئی۔پھر بات بڑھتی گئی۔ اشفاق احمد سارا دن موقع ڈھونڈتا کہ ہاتھ پھیلا کر کہے، ایک آنہ۔ محترمہ منتظر رہنے لگی۔ پھر اہتمام کرنے لگیں کہ جیب میں ٹوٹی ہوئی اکنی موجود رہے۔ بات بڑھی تو محترمہ آگے کی بجائے پیچھے ہٹنے لگی۔ اشفاق حیران رہ گیا۔ وہ “اب کیا ہوگا“کی فکر سے آزاد ہو گیا۔ اس لئے آگے بڑھنے لگا اور آگے اور آگے۔ یہ اس کے لئے ایک انوکھا تجربہ تھا جس میں آگے بڑھنے کی لذت تو موجود تھی لیکن فاصلہ کم ہونے کا خدشہ نہ تھا۔ آگے بڑھتے بڑھتے وہ اس مقام پر پہنچ گیا جہاں سے واپسی ممکن نہیں رہتی۔اشفاق طبعأ ایک گیلی لکڑی ہے۔ بھڑک کر جلنے کی صلاحیت سے محروم۔ صرف سلگنا جانتا ہے۔ سال ہا سال سلگتا رہا۔ محترمہ میں انتظار کا حوصلہ تھا۔ حالات نا مساعد تھے۔ خاندان روائیتی تھا۔ باپ جابر تھا۔ اشفاق گونگا تھا۔ آخری قدم اٹھانے کی ہمت نہ تھی۔ ایک بھائی اور دو دوستوں نے زبردستی اٹھا کر ملا کے سامنے بٹھا دیا۔ محترمہ کی والدہ تعلیم یافتہ تھی۔ سمجھدار تھی۔ وسعت دل کی حامل تھی۔ اس نے تعاون کیا۔ شادی ہوگئی۔ گھر والوں نے اسے بھگوڑا قرار دے دیا اور لا تعلق ہو گئے۔ پلے کچھ تھا نہیں کہ گھر کا چولہا جلتا رہتا۔ دونوں میاں بیوی نے کانوں پر قلم ٹانگے اور “سکرپٹ لکھوا لو۔ چلو جی کوئی سکرپٹ لکھوا لو“ کا ہوکا دیتے گھر سے باہر نکل گئے۔ یہ محترمہ بانو قدسیہ تھی۔ اشفاق احمد نے برش اور رنگ کو کیوں تیاگ دیا۔ اس کی جگہ قلم کو کیوں اپنا لیا۔ غالبا اس لئے کہ عمل میں وہ اتنی تفصیلات نہیں دکھا سکتا تھا جو داستان گو کے بورے میں بھری ہوئی تھیں ۔ اصولی طور پر تو اسے مغنی ہونا چاہئے تھا۔ چونکہ وہ ایک عظیم کان کا مالک ہے۔ لیکن اشفاق کو انسانی کردار سے دلچسپی تھی۔ خالی آواز کا زیرو بم اسے جذب نہ کر سکا۔ اس لئے اشفاق احمد افسانہ نویس بن گیا۔ادب میں شہرت پانے کے بعد دنیائے ادب میں رکنا اس کے لئے مشکل ہو گیا۔ اس کے اندر کی طوائف کا دم گھٹنے لگا۔ اور وہ شو مین بزنس میں جا شامل ہوا۔ اولین دور میں اشفاق احمد کو کچھ کرنے کا شوق تھا۔ اب اسے کچھ کر دکھانے کا شوق ہے۔اشفاق احمد ایک پرفیکشنسٹ ہے۔ وہ جو کام بھی کرتا ہے اس کے اندر دھنس جاتا ہے۔ اس قدر دھنس جاتا ہے کہ لت پت ہوئے بغیرباہر نہیں نکلتا۔ مثلا جب وہ ماڈل ٹاؤن میں مکان بنا رہا تھا تو کئی ایک ماہ کے لئے معمار بن گیا۔ چنائی اور پلستر کے کاموں کے اندر دھنس گیا۔ جب وہ مکان میں نلکے لگوا رہا تھا تو آٹھ روز برانڈرتھ روڈ کے چکر لگاتا رہا۔ اس نے تمام ٹونٹیاں دیکھیں۔ کس کس کا منہ کھلا ہے کس کس کا بند ہے۔ بیچ میں کتنے کتنے چکر ہیں۔ کس کس کا واشل مضبوط ہے۔ کھولیں تو کتنی دھار نکلتی ہے۔ بند کریں تو چونے کی صلاحیت کس قدر ہے۔ آٹھ دن کی تحقیق کے بعد وہ ٹونٹیوں پر تفصیلی مقالہ لکھ سکتا تھا۔ کہ پاکستانی کارخانوں کی بنی ٹونٹیوں کے کیا خواص ہیں۔ کیا کیا خوبیاں ہیں۔ کیا کیا خامیاں ہیں۔ یہ تفصیلات اکٹھی کرنے کے بعد اس نے مکان کے نلکوں کے لئے ٹونٹیاں خریدیں۔کباب بنانے کا شوق ہوا تو لاہور کے مشہور کبابیوں کے کوائف اکٹھے کرتا رہا۔ قیمہ کیسا ہونا چاہئے۔ مصالحہ کیسا ہونا چاہئے۔ آنچ کیسی ہو کتنی ہو۔ اس کے بعد اس نے کباب بنانے کی سیخیں خرید لیں۔ اور میاں بیوی مل کر کباب سازی کی مشق کرتے رہے۔ اب اشفاق کے ہاتھ کے بنے ہوئے کباب منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ اکثر دوستوں کو مدعو کرتا ہے۔ خود کباب بنائے جاتا ہے۔ دوست کھائے جاتے ہیں۔اس شوق تحقیق کو اشفاق کام میں نہیں لا سکتا۔ اس کی تحقیق کا مقصد صرف لذت تحقیق ہے۔ ورنہ آج گلبرگ میں اس کی دوکان ہوتی اور سارے لاہور میں اشفاق کبابیے کی دھوم ہوتی۔اشفاق احمد نے آج تک اپنے صرف ایک فن سے مالی فائدہ حاصل کیا ہے۔ اور وہ ہے سکرپٹ رائیٹنگ۔ عرصہ دراز تک اشفاق کے گھر میں حساب کتاب سکرپٹوں میں ہوتا رہا۔ کرایہ مکان چار سکرپٹ۔ باورچی خانے کا خرچ آٹھ سکرپٹ۔ علاج معالجہ ڈیڑھ سکرپٹ۔ لین دین دو سکرپٹ۔ آج بھی بانو سے پوچھو یہ صوفہ کتنے میں خریدا تھا۔ تو وہ کہے گی اچھی طرح یاد نہیں، شائد تین سکرپٹ لگے تھے۔آج بھی میاں بیوی ہنگامی ضروریات پورا کرنے کے لئے قلم کا پھاوڑا چلاتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ دونوں کے سکرپٹوں سے مشقت کے پسینے کی بو نہیں آتی۔ان کے گھر چلے جاؤ تو یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ منشیوں کا گھر ہے۔ الٹا وہ تو میزبانوں کا گھر لگتا ہے۔ یہ آج کی بات نہیں ان دنوں بھی ان کا گھر فارغ البالوں کا گھر لگتا تھا جب چولہا جلائے رکھنے کا مسئلہ پیش پیش تھا۔اشفاق کی خوش قسمتی کا ایک اور پہلو ملاحظہ ہو۔ اشفاق احمد نے ایک خاتون کے ساتھ عشق کیا۔ کئی سال وہ اس کے عشق میں گھلتا رہا۔عشق میں کامیاب ہوا۔ خاتون بیوی بن کر گھر آئی تو وہ محبوبہ نہ تھی بلکہ عاشق نکلی۔ ورنہ اشفاق احمد کے جملہ کس بل نکل جاتے۔ محبوب طبیعیت وہ ازلی طور پر تھا۔ بیوی کی آمد کے بعد با لکل ہی دیوتا بن گیا۔ کانٹا اشفاق کو چبھتا ہے تو درد بانو کو ہوتا ہے۔ ہتھ چکی اشفاق چلاتا ہے تو آبلے بانو کے ہاتھوں میں پڑتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک خالص پکی دانشور نے پتی بھگتی میں اپنا سب کچھ جذبات،ذہن، روح سب تیاگ رکھا ہے۔ بانو بہت بڑی مفکر ہے۔ وہ ہر بات میں صاحب رائے ہے۔ عقل و خرد سے بھرپور لیکن جب اشفاق طلوع ہو جائے تو سب کچھ سپاٹ ہو جاتا ہے۔ عقل،خرد، دانشوری۔اشفاق کو شریفانہ قسم کا غصہ نہیں آتا۔ غصہ آتاتو ہے۔لیکن غصے میں وہ بھڑک کر جلنے کی عشرت سے محروم ہے۔ وہ چپڑ چپڑ کرتا ہے۔ سلگتا ہے۔بل کھاتا ہے اور اپنی سلگن کا دوسرے کی ناک میں دھواں دیتا رہتا ہے۔ کئی بار اس کی چڑ چڑ اس قدر شدید ہوجاتی ہے کہ گھر بھٹیاری کی کڑاہی بن کر رہ جاتا ہے۔ چڑ چڑ دانے بھنتے رہتے تھے۔یہ چڑچڑ بھی اس کے لئے خوش قسمتی بن گئی۔گمان غالب ہے کہ ایک دن جب بھٹیارن دانے بھون رہی تھی۔ اسے وہ شخصیت یاد آگئی جس نے اسے چڑ چڑ کا تحفہ بخشا تھا۔ وہ گلیور جس نے بچپن میں اسے ٹھگنا بنائے رکھا تھا۔ اس وقت اشفاق احمد اپنے نئے سکرپٹ کے لئے موضوع سوچ رہا تھا۔ اس نے بچپن کے گلیور کا قصہ لکھ دیا۔یوں تلقین شاہ وجود میں آگیا۔تلقین شاہ ایک جاذب توجہ کردار ہے۔ لوگوں نے تلقین شاہ کو سنا تو بھونچکے رہ گئے۔ ہر کسی کے دل کی گہرائیوں میں چھپے بالشتئے نے سر نکالا۔ اور دوسروں کو تلقین کرنے والے گلیور پر تالیاں بجانے لگا۔ہم سب میں کہیں نا کہیں ایک چھپا ہوا بالشتیہ موجود ہے۔ جس کا وجود کسی نا کسی تلقین شاہ کا مرہون منت ہے۔
اشفاق احمد کھاتے پیتے پٹھان گھرانے میں پیدا ہوا۔ بہت سے بھائیوں میں ایک کے سوا سب سے چھوٹا۔ باپ ایک قابل، محنتی اورجابر پٹھان تھا۔
(یہاں کتاب کی تصویر ترتیب کے خلاف یہاں سے شروع ہوتی ہے) ایک روز کیمپ کے ایک ویران کونے میں جب میں حالات کی وجہ سے پریشان کھڑا تھا تو ایک چٹی سفید شگفتگی اور تازگی سے بھرپور مٹیار میرے روبرو آکھڑی ہوئی۔ آنکھیں چمکا کر بولی آپ ممتاز مفتی ہیں۔
جی۔ میں نے جواب دیا۔
ہم نے آپ کی “آپا“ پڑھی ہے۔
بہت اچھا کیا آپ نے۔
بولی۔ میں ساتھ والے کیمپ میں ملازم ہوں۔ کبھی ادھر آئیے گا۔
جی اچھا۔ میں بولا۔
بولی۔ میرا نام اشفاق احمد ہے۔
پہلی بار اسے دیکھ کر ایسے لگاجیسے گلابی مخمل پر سنہرے پھول کڑھے ہوں۔ پھر اشفاق اور میں روز ملنے لگے۔جوں جوں میں اس کے قریب ہوتا گیا، مخمل ٹاٹ میں بدلتی گئی۔ سنہرے پھول، بوٹے ابھرتے گئے۔ طوائف کی پسواج کبھی کبھی کھلنے لگتی۔ اس لئے نہیں کہ اشفاق کے اندر کی طوائف بہت نمایاں تھی، بلکہ اس لئے کہ وہ میرے اندر کی طوائف سے زیادہ بھڑکیلی تھی۔ ہر فنکار میں ایک طوائف ہوتی ہے۔ کسی میں ننگی، کیسی میں ادھ کھلی، کسی میں مستور، مثلاابوالاثر میں بالکل ننگی تھی۔ محمد طفیل میں مستور ہے۔ انتظار میں ادھ کھلی ہے۔ اشفاق میں گھونگھٹ نکال کر سامنے بیٹھی رہتی ہے۔ اس زمانے میں ہم لارنس باغ میں اوپن ایئر تھیٹر میں ملا کرتے تھے۔ اوپن ایئر تھیٹر ذوبی کے قبضے میں تھا۔ ذوبی اشفاق کا دوست تھا اور جانا پہچانا آرٹسٹ تھا۔ ذوبی خوش باش نوجوان تھا۔ انداز میں سنجیدگی تھی۔ بات میں پھلجڑی تھی۔اوپن ایئر تھیٹر میں پہنچتے ہی اشفاق کے اندر کا ڈرامائی نقالیہ باہرنکل آتا۔پھر رنگین باتوں کے سنہرے جال ہوا میں اڑتے۔ نقلیں ممکس، قصے کہانیاں چٹکلے، لطیفے۔ اشفاق احمد تماشا ہوتا اور ہم تماشائی ہوتےاور اوپن ایئر تھیٹر واقعی تھیٹر بن جاتا۔اشفاق احمد ٹیلینٹڈ فنکار ہے۔ اس کی ٹیلینٹ کا مرکز آنکھ اور کان ہیں۔ خصوصا کان۔ وہ مجھ سے زیادہ دیکھتا ہے، زیادہ سنتا ہے۔ اس کا ذہن ہر تفصیل کو ریکارڈ کر لیتا ہےاور اس کا نطق اسے من و عن ری پروڈیوس کر سکتا ہے۔ان دنوں اشفاق احمد ایک لق و دق جزیرے میں رہتا تھا جو رابنسن کروسو کے جزیرے سےکہیں زیادہ ویران تھا۔ اشفاق احمد کا یہ جزیرہ ایک بہت کھلی نیم چھتی تھی جو ایک وسیع و عریض رستے بستے مکان کی اوپر کی منزل پر واقع تھی۔جب بڑے خان گھر پر نہ ہوتے تو نچلی منزل پر اک میلا لگ جاتا۔ شور شرابہ، ہنسی مذاق۔ لیکن نیم چھتی میں ہر وقت ہو کا عالم ہوتا۔ وہاں چاروں طرف کتابوں کے ریک بھرے ہوئے تھے۔ جن میں رنگا رنگ کی کتابیں تھیں۔ ان کے درمیان فرش پر اشفاق احمد یا تو مطالعہ میں مصروف ہوتا اور یا مستقبل کے منصوبے بناتا۔ جاگتے کے خواب دیکھتا۔اس جزیرے کو دیکھ کر میں نے جانا کہ اشفاق احمد صرف دکھ اورچپ نہیں، ازلی اکیلا بھی ہے۔ وہ بذات خود ایک جزیرہ ہے جو کسی کو کنارے لگنے نہیں دیتا۔ جو نہیں چاہتا کہ کوئی اس کی تنہائی میں مخل ہو۔سارا سارا دن وہ کتابوں کے انبار میں بیٹھا رہتا۔ بے نام دکھ کا مارا ہوا۔ بے وجہ چپ تلے دبا ہوا۔ پھر آہستہ آہستہ ساری نیم چھتی ایک عظیم اکتاہٹ سے لبا لب بھر جاتی۔ اس میں ایک وحشت بیدار ہوتی۔ لپک کر وہ سنہرے پھول بوٹوں والا چغہ پہن لیتا۔ چغہ پہنتے ہی چہرے کے زاوئیے اوپر کو ابھر آتے۔ ہونٹوں پر روغنی تبسم کھلنے لگتااور وہ چٹکیاں بجاتا نیم چھتی کی سیڑھیاں اترنے لگتا۔ پھر یہ خوش باش نوجوان اوپن ایئر تھیٹر میں جا پہنچتا۔ وہاں ڈگڈگی بجاتا۔ گھنگھرو چھنکاتا۔ مجمع لگاتا۔ تھیلے سے رنگین باتوں کے جال نکالتا۔ گنگناتا، گاتا، ڈرامے کھیلتا۔ قہقہے لگاتا۔ خود ناچتا دوسروں کو نچاتا۔ لیکن یہ دور زیادہ دیر کے لئے نہیں چلتا تھا۔ اس کے بعد وہی جزیرہ وہی ہو حق۔ وہی دکھ وہی چپ وہی تنہائی۔ وہی اشفاق احمد۔ اس زمانے میں اشفاق کی زندگی اس خاتون کی طرح گذر رہی تھی جو سارا دن ننگے سر ننگے پائوں ان دھلے منہ اور لت پت بال لئے دھوپ میں بیٹھی ہو، نسیان پانے میں لگی رہتی ہواور شام کو ہار سنگھار کرکے پسواج پہن کے طوائف بن جاتی ہو۔پتہ نہیں فنکار کی تخلیق میں قدرت اس قدر اہتمام کیوں کرتی ہے۔ اپاہج بنا کر ناچنے کی انگیخت دیتی ہے۔ گونگا بنا کر باتوں کی پھلجڑی چلانے پر اکساتی ہے۔ پتہ نہیں قدرت ایسا کیوں کرتی ہے۔ مگر یقینأ وہ ایسا کرتی ہے۔اس زمانے میں ایک ویران نیم چھتی میں تنہائی دکھ اور چپ کے بنیادی رنگوں سے قدرت ایک فن کار تخلیق کر رہی تھی۔پتہ نہیں کن وجوہات کی بنیاد پر اشفاق احمد کی شخصیت میں ہفت رنگی عناصر پیدا ہو چکے تھے۔ ایک بے نیاز صوفی بابا۔ رکھ رکھاؤ سے سرشار۔ ایک دنیا دار خودنمائی سے بھرپور ایک خاتون۔ پتھر کا بولتا ہوا ایک دیوتا۔ دوسروں کو نصیحتیں کرنے پر پھبتیاں کسنے والا ایک تلقین شاہ۔ اپنی منوانے والا گھر کا مالک۔ سن کر جذب کر لینے والا ایک عظیم کان۔اشفاق کے والد ایک عظیم شخصیت تھے۔ اتنی عظیم کہ انھوں نے گھر کے تمام افراد کو کبڑا بنا رکھتا تھا۔ جب یہ گلیور گھر ہوتا تو کسی کو دم مارنے کی اجازت نہ ہوتی۔ گھر سے باہر ہوتا تو دھما چوکڑی مچ جاتی۔بیگم اس سوچ میں کھوئی رہتی کہ عجز و ادب احترام اور دنیا داری کا کون سا نیا مرکب ایجاد کیا جائے جس کے زور پر ظل الٰہی کو ڈھب پر لایا جا سکے۔خان منزل میں صرف پٹھان خصوصیات کی قدرو منزلت تھی۔ چونکہ اشفاق ان خصوصیات سے محروم تھا۔ اس لئے گھر میں وہ سب سے چھوٹا بالشتیا تھا۔اشفاق میں انفرادیت کی ایک کلی لگی ہوئی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کوئی انوکھی بات کرے۔ انوکھا کام کرے۔ انوکھی خبر سنا کر دنیا کو حیران کر دے۔ خان منزل میں اس کا یہ جذبہ تشنہء تکمیل رہا۔ دل میں ایک کانٹا لگا رہا۔ رد عمل یہ ہوا کہ اب وہ کسی کو گلیور ماننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ کسی پہلو سے خود کو بالشتیا تسلیم کرنے سے منکر ہے۔اگرچہ وہ اپنی فنکارانہ عظمت کا تذکرہ خود نہیں کرے گا۔ لیکن اس کا جی چاہے گا کہ دوسرا کرے۔ دوسرا کرےتو اشفاق کے چہرے پر پھلجڑیاں چلنے لگیں گی۔ چہرے کے زاوئیے اوپر کو ابھر آئیں گے۔ آنکھوں میں تبسم پھوٹے گا۔کسی دوسرے فنکار کی عظمت کی بات چھڑ جائے تو وہ بات کو کاٹے گا نہیں لیکن ہاں میں ہاں بھی نہیں ملائے گا۔ اشفاق احمد کی شخصیت کے سادھو پن سے مجھے انکار نہیں لیکن اس کی فنکارانہ انا خاموشی کے گھونگھٹ تلے چھپے رہنے کے باوجود بڑی طوطا چشم ہے۔اس جزیرے کی بوجھل تنہائی میں اشفاق احمد نے جو اظہار کا پہلا طریقہ آزمایا وہ مصوری تھا۔ یہ ذوبی سے میل ملاپ کی وجہ سے تھا۔ لیکن کچھ دیرکے بعد اس نے مصوری کو چھوڑ کر ادب کو اپنا لیا۔ اور وہ مختصر افسانے لکھنے لگا۔مصوری کا دور صرف تین چار سال رہا۔ اس کے دو عمل مجھے ابھی تک یاد ہیں۔ پہلے عمل کا نام کال بیل تھا۔ تصویر میں نسائی جسم کا وہ برقی بٹن دکھایا گیاتھا جسے دبانے سے محترمہ رکھ رکھاؤ اور لاج کے پردے چاک کر کے باہر نکل آتی ہے۔تصویر دیکھ کر محسوس ہوتا تھا جیسے باہر نکل آنے والی محترمہ دراصل ایک جن ہو جسے انسانی بوتل میں قید کر رکھا ہو۔دوسرے عمل کا کوئی نام نہ تھا۔ ہوتا تو “دی فالک رومن“ ہوتا۔ تصویر میں عورت دکھائی گئی تھی۔ جس میں جنسی تقاضوں کی گٹھڑیاں کندھوں پر رکھی تھیں۔ اوروہ آرزو کی ان مٹکیوں کو بر سر عام چھلکاتی پھرتی تھی۔پتہ نہیں اشفاق احمد نے عمل نگاری میں جنس کا موضوع کیوں اپنایا۔ چونکہ اشفاق احمد کا جنس سےلگاؤ ضمنی ہے۔جنس کے لحاظ سے مرد کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک وہ جو جذبے کا دریچہ کھولے بغیر جنس کے ایوان میں چہل قدمی کے شوقین ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ کہ جب تک جذبات کا دروازہ نہ کھلے جنس کے خدوخال نہیں ابھرتے۔ اورتیسرے وہ کہ جذبات کی کھڑکی کھل بھی جائے تو بھی جنس سے خفا رہتے ہیں۔ اشفاق احمد تیسرے قسم سے تعلق رکھتا ہے۔ ان دنوں اشفاق احمد کی آرزو تھی کہ شوخ اور طرحدار لڑکیوں کو باتوں کے جال بن کر اپنی طرف متوجہ کرے۔ متاثر کرے۔ جب وہ تاثر سے بھیگ جاتیں تو اشفاق پر گھبراہٹ طاری ہوجاتی کہ “اب کیا ہوگا“۔ اشفاق اب بھی عورت کے قرب سے ڈرتا ہے۔ قریب مت آؤ دور کھڑی ہو کر بات کرو۔لیکن نسائی نفسیات کے مطابق فاصلے نہیں بلکہ قرب محفوظ ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ آگے بڑھنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس اشفاق کے لئے فاصلہ محفوظ تھا۔ اس لئے وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوتا۔ زندگی میں وہ بار بار پیچھے ہٹا۔ الٹے پاوں بھاگا۔ ہونکتا ہوا اپنی نیم چھتی میں پہنچا۔ سچے دل سے باتوں کے جال بننے سے توبہ کی لیکن باتوں کے جال بننے پر مجبور تھا۔ بار بار توبہ ٹوٹی۔حتٰی کہ گورنمنٹ کالج میں وہ محترمہ منظر خاص پر آگئی۔وہ محترمہ بڑی چتر کار تھی۔ اندر سے قدیم اوپر سے جدید۔ اوپر سے سادی اور اندر بن ٹھن ہی بن ٹھن۔ اوپر سے ٹھہراؤ ہی ٹھہراؤ اور اندر جذبات کی ہلچل۔ اوپر ذہن ہی ذہن، اندر دل ہی دل۔ وہ محترمہ دروپدی اور گیشیا کا سنگم تھی۔ وہ محترمہ متاثر ہو کر آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے ہٹنے کی عظمت کو جانتی تھی۔ وہ محترمہ ان مشرقی خواتین میں سے تھی جو پیچھے ہٹنے والوں کو پہچانتی ہیں۔ اور خود پیچھے ہٹ کر انہیں پیچھے ہٹنے کی ندامت سے بچا لیتی ہیں۔بڑے واقعات ہمیشہ چھوٹی بات سے جنم لیتے ہیں۔ایک روز محترمہ برآمدے سے گزر رہی تھی۔ اشفاق نے سوچا کوئی منفرد بات کروں۔ اس نے ہاتھ پھیلا دیا۔ ایک آنہ دیجئے۔ کس لئے، محترمہ نے پوچھا۔ سیگریٹ پیئوں گا۔محترمہ نے اکنی ہاتھ پر رکھ دی۔ فتنہ فساد کے ایوان کی بنیاد میں پہلی اینٹ رکھ دی گئی۔پھر بات بڑھتی گئی۔ اشفاق احمد سارا دن موقع ڈھونڈتا کہ ہاتھ پھیلا کر کہے، ایک آنہ۔ محترمہ منتظر رہنے لگی۔ پھر اہتمام کرنے لگیں کہ جیب میں ٹوٹی ہوئی اکنی موجود رہے۔ بات بڑھی تو محترمہ آگے کی بجائے پیچھے ہٹنے لگی۔ اشفاق حیران رہ گیا۔ وہ “اب کیا ہوگا“کی فکر سے آزاد ہو گیا۔ اس لئے آگے بڑھنے لگا اور آگے اور آگے۔ یہ اس کے لئے ایک انوکھا تجربہ تھا جس میں آگے بڑھنے کی لذت تو موجود تھی لیکن فاصلہ کم ہونے کا خدشہ نہ تھا۔ آگے بڑھتے بڑھتے وہ اس مقام پر پہنچ گیا جہاں سے واپسی ممکن نہیں رہتی۔اشفاق طبعأ ایک گیلی لکڑی ہے۔ بھڑک کر جلنے کی صلاحیت سے محروم۔ صرف سلگنا جانتا ہے۔ سال ہا سال سلگتا رہا۔ محترمہ میں انتظار کا حوصلہ تھا۔ حالات نا مساعد تھے۔ خاندان روائیتی تھا۔ باپ جابر تھا۔ اشفاق گونگا تھا۔ آخری قدم اٹھانے کی ہمت نہ تھی۔ ایک بھائی اور دو دوستوں نے زبردستی اٹھا کر ملا کے سامنے بٹھا دیا۔ محترمہ کی والدہ تعلیم یافتہ تھی۔ سمجھدار تھی۔ وسعت دل کی حامل تھی۔ اس نے تعاون کیا۔ شادی ہوگئی۔ گھر والوں نے اسے بھگوڑا قرار دے دیا اور لا تعلق ہو گئے۔ پلے کچھ تھا نہیں کہ گھر کا چولہا جلتا رہتا۔ دونوں میاں بیوی نے کانوں پر قلم ٹانگے اور “سکرپٹ لکھوا لو۔ چلو جی کوئی سکرپٹ لکھوا لو“ کا ہوکا دیتے گھر سے باہر نکل گئے۔ یہ محترمہ بانو قدسیہ تھی۔ اشفاق احمد نے برش اور رنگ کو کیوں تیاگ دیا۔ اس کی جگہ قلم کو کیوں اپنا لیا۔ غالبا اس لئے کہ عمل میں وہ اتنی تفصیلات نہیں دکھا سکتا تھا جو داستان گو کے بورے میں بھری ہوئی تھیں ۔ اصولی طور پر تو اسے مغنی ہونا چاہئے تھا۔ چونکہ وہ ایک عظیم کان کا مالک ہے۔ لیکن اشفاق کو انسانی کردار سے دلچسپی تھی۔ خالی آواز کا زیرو بم اسے جذب نہ کر سکا۔ اس لئے اشفاق احمد افسانہ نویس بن گیا۔ادب میں شہرت پانے کے بعد دنیائے ادب میں رکنا اس کے لئے مشکل ہو گیا۔ اس کے اندر کی طوائف کا دم گھٹنے لگا۔ اور وہ شو مین بزنس میں جا شامل ہوا۔ اولین دور میں اشفاق احمد کو کچھ کرنے کا شوق تھا۔ اب اسے کچھ کر دکھانے کا شوق ہے۔اشفاق احمد ایک پرفیکشنسٹ ہے۔ وہ جو کام بھی کرتا ہے اس کے اندر دھنس جاتا ہے۔ اس قدر دھنس جاتا ہے کہ لت پت ہوئے بغیرباہر نہیں نکلتا۔ مثلا جب وہ ماڈل ٹاؤن میں مکان بنا رہا تھا تو کئی ایک ماہ کے لئے معمار بن گیا۔ چنائی اور پلستر کے کاموں کے اندر دھنس گیا۔ جب وہ مکان میں نلکے لگوا رہا تھا تو آٹھ روز برانڈرتھ روڈ کے چکر لگاتا رہا۔ اس نے تمام ٹونٹیاں دیکھیں۔ کس کس کا منہ کھلا ہے کس کس کا بند ہے۔ بیچ میں کتنے کتنے چکر ہیں۔ کس کس کا واشل مضبوط ہے۔ کھولیں تو کتنی دھار نکلتی ہے۔ بند کریں تو چونے کی صلاحیت کس قدر ہے۔ آٹھ دن کی تحقیق کے بعد وہ ٹونٹیوں پر تفصیلی مقالہ لکھ سکتا تھا۔ کہ پاکستانی کارخانوں کی بنی ٹونٹیوں کے کیا خواص ہیں۔ کیا کیا خوبیاں ہیں۔ کیا کیا خامیاں ہیں۔ یہ تفصیلات اکٹھی کرنے کے بعد اس نے مکان کے نلکوں کے لئے ٹونٹیاں خریدیں۔کباب بنانے کا شوق ہوا تو لاہور کے مشہور کبابیوں کے کوائف اکٹھے کرتا رہا۔ قیمہ کیسا ہونا چاہئے۔ مصالحہ کیسا ہونا چاہئے۔ آنچ کیسی ہو کتنی ہو۔ اس کے بعد اس نے کباب بنانے کی سیخیں خرید لیں۔ اور میاں بیوی مل کر کباب سازی کی مشق کرتے رہے۔ اب اشفاق کے ہاتھ کے بنے ہوئے کباب منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ اکثر دوستوں کو مدعو کرتا ہے۔ خود کباب بنائے جاتا ہے۔ دوست کھائے جاتے ہیں۔اس شوق تحقیق کو اشفاق کام میں نہیں لا سکتا۔ اس کی تحقیق کا مقصد صرف لذت تحقیق ہے۔ ورنہ آج گلبرگ میں اس کی دوکان ہوتی اور سارے لاہور میں اشفاق کبابیے کی دھوم ہوتی۔اشفاق احمد نے آج تک اپنے صرف ایک فن سے مالی فائدہ حاصل کیا ہے۔ اور وہ ہے سکرپٹ رائیٹنگ۔ عرصہ دراز تک اشفاق کے گھر میں حساب کتاب سکرپٹوں میں ہوتا رہا۔ کرایہ مکان چار سکرپٹ۔ باورچی خانے کا خرچ آٹھ سکرپٹ۔ علاج معالجہ ڈیڑھ سکرپٹ۔ لین دین دو سکرپٹ۔ آج بھی بانو سے پوچھو یہ صوفہ کتنے میں خریدا تھا۔ تو وہ کہے گی اچھی طرح یاد نہیں، شائد تین سکرپٹ لگے تھے۔آج بھی میاں بیوی ہنگامی ضروریات پورا کرنے کے لئے قلم کا پھاوڑا چلاتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ دونوں کے سکرپٹوں سے مشقت کے پسینے کی بو نہیں آتی۔ان کے گھر چلے جاؤ تو یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ منشیوں کا گھر ہے۔ الٹا وہ تو میزبانوں کا گھر لگتا ہے۔ یہ آج کی بات نہیں ان دنوں بھی ان کا گھر فارغ البالوں کا گھر لگتا تھا جب چولہا جلائے رکھنے کا مسئلہ پیش پیش تھا۔اشفاق کی خوش قسمتی کا ایک اور پہلو ملاحظہ ہو۔ اشفاق احمد نے ایک خاتون کے ساتھ عشق کیا۔ کئی سال وہ اس کے عشق میں گھلتا رہا۔عشق میں کامیاب ہوا۔ خاتون بیوی بن کر گھر آئی تو وہ محبوبہ نہ تھی بلکہ عاشق نکلی۔ ورنہ اشفاق احمد کے جملہ کس بل نکل جاتے۔ محبوب طبیعیت وہ ازلی طور پر تھا۔ بیوی کی آمد کے بعد با لکل ہی دیوتا بن گیا۔ کانٹا اشفاق کو چبھتا ہے تو درد بانو کو ہوتا ہے۔ ہتھ چکی اشفاق چلاتا ہے تو آبلے بانو کے ہاتھوں میں پڑتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک خالص پکی دانشور نے پتی بھگتی میں اپنا سب کچھ جذبات،ذہن، روح سب تیاگ رکھا ہے۔ بانو بہت بڑی مفکر ہے۔ وہ ہر بات میں صاحب رائے ہے۔ عقل و خرد سے بھرپور لیکن جب اشفاق طلوع ہو جائے تو سب کچھ سپاٹ ہو جاتا ہے۔ عقل،خرد، دانشوری۔اشفاق کو شریفانہ قسم کا غصہ نہیں آتا۔ غصہ آتاتو ہے۔لیکن غصے میں وہ بھڑک کر جلنے کی عشرت سے محروم ہے۔ وہ چپڑ چپڑ کرتا ہے۔ سلگتا ہے۔بل کھاتا ہے اور اپنی سلگن کا دوسرے کی ناک میں دھواں دیتا رہتا ہے۔ کئی بار اس کی چڑ چڑ اس قدر شدید ہوجاتی ہے کہ گھر بھٹیاری کی کڑاہی بن کر رہ جاتا ہے۔ چڑ چڑ دانے بھنتے رہتے تھے۔یہ چڑچڑ بھی اس کے لئے خوش قسمتی بن گئی۔گمان غالب ہے کہ ایک دن جب بھٹیارن دانے بھون رہی تھی۔ اسے وہ شخصیت یاد آگئی جس نے اسے چڑ چڑ کا تحفہ بخشا تھا۔ وہ گلیور جس نے بچپن میں اسے ٹھگنا بنائے رکھا تھا۔ اس وقت اشفاق احمد اپنے نئے سکرپٹ کے لئے موضوع سوچ رہا تھا۔ اس نے بچپن کے گلیور کا قصہ لکھ دیا۔یوں تلقین شاہ وجود میں آگیا۔تلقین شاہ ایک جاذب توجہ کردار ہے۔ لوگوں نے تلقین شاہ کو سنا تو بھونچکے رہ گئے۔ ہر کسی کے دل کی گہرائیوں میں چھپے بالشتئے نے سر نکالا۔ اور دوسروں کو تلقین کرنے والے گلیور پر تالیاں بجانے لگا۔ہم سب میں کہیں نا کہیں ایک چھپا ہوا بالشتیہ موجود ہے۔ جس کا وجود کسی نا کسی تلقین شاہ کا مرہون منت ہے۔
No comments:
Post a Comment