توڑ دیں گے ہر اک شے سے رشتہ، توڑ دینے کی نوبت تو آئے
ہم قیامت کے خود منتظر ہیں، پر کسی دن قیامت تو آئے
ہم بھی سقراط ہیں عہدِ نو کے تشنہ لب ہی نہ مر جائیں یارو
زہر ہو یا مے آتشیں ہو، کوئی جامِ شہادت تو آئے
ایک تہذیب ہے دوستی کی، ایک معیار ہے دشمنی کا
دوستوں نے مروت نہ سیکھی، دشمنوں کو عداوت تو آئے
رند رستے میں آنکھیں بچھائیں، جو کہے بن سنے مان جائیں
ناصحِ نیک طینت کسی شب، سُوئے کوئے ملامت تو آئے
علم و تہذیب، تاریخ و منطق، لوگ سوچیں گے ان مسئلوں پر
زندگی کے مشقت کدے میں، کوئی عہدِ فراغت تو آئے
کانپ اٹھیں قصرِ شاہی کے گنبد، تھرتھرائے زمیں معبدوں کی
کوچہ گردوں کی وحشت تو جاگے، غمزدوں کو بغاوت تو آئے
- ساحر لدھیانوی
No comments:
Post a Comment