ابھی شعبان کا نصف ہی ہوا ہوتا ہے کہ لاہور کی سڑکوں پر رمضان کے آثار دِکھنے لگتے ہیں. جگہ جگہ گداگروں کے جھنڈ کے جھنڈ. کوئی چوراہا، کوئی ٹریفک سگنل، کوئی اسپتال، کوئی خریداری کا مرکز ... کسی جگہ مانگنے والوں سے مفر نہیں. اور مسئلہ صرف یہیں تک رہتا تو شاید کوفت سنبھالی بھی جاتی، بات تو اب یوں ہے کہ سوالی سوال کم کرتا ہے دھونس سے زچ زیادہ کرتا ہے.
اب تو پھر باقاعدہ روزے شروع ہو گئے تھے. ایک تو مئی کی چلچلاتی گرمی، اوپر سے دفتر کی چخ چخ. اور پھر یہ زارا کی افطار پارٹیز کے چونچلے. نیند یوں بھی پوری نہیں ہوتی، پیٹ خالی اور پھر سڑک پر یہ گداگروں کی غنڈہ گردی ... زید نے جھنجلا کر پھر سے ہارن بجایا. اشارے پر رکی اگلی گاڑی والے نے شیشہ نیچے گرایا اور ہاتھ باہر نکال کر ایک نازیبا اشاره کیا. اس نے جواباً ایک ننگی گالی بکی. اشارہ جیسے اسی گالی کا منتظر تھا، جھپاک سے سبز ہو گیا. زید کا پاؤں ایکسلریڑر پر جا ٹکا.
سپیڈ ہی تو زندگی ہے.
----
ولید چچا لاہور چھوڑ کر ایبٹ آباد میں کیوں بن باس لیے بیٹھ گئے، سارے خاندان میں ہر بڑی محفل میں یہ کہانی دعوت کے منیو کا حصہ سمجھی جاتی ہے. پچھلے سولہ سال سے اس منیو آئٹم کا ذائقہ ہر قصہ گو کے تخیلاتی ذوق اور ہمدردی کے رخ کے ساتھ بدلتا رہتا ہے. کوئی بھنے اُلو کھا لینے کے نقصانات بتاتا، کوئی دادا کی کمائی کسی بد دعا کا ذکر کرتا، کوئی اپنا صبر دادی پر پڑنے کی داد مانگتا ... غرضیکہ جتنے منہ، اتنی کہانیاں.
فاخرہ چچی کہتی تھیں انہوں نے اکثر اس لڑکی کو جرمنی میں ٹرین میں دیکھا ہے جسکی وجہ سے ولید چچا دربدر ہوئے. آئدہ پپھو کہتیں چچی سدا کی جھوٹی ہیں، وہ لڑکی گلبرگ میں ہی رہتی ہے. اعلیٰ تعلیمیافتہ نوجوان کس طرح کسی لڑکی کے پیچھے جوگ لے بیٹھا، زارا کو یہ ساری کتھا کریدنے میں بڑا مزہ آتا.
سسپنس سے ہی تو زندگی میں رومانس پیدا ہوتا ہے.
----
اسلام آباد تبدیلی کے بعد یہ میرا پہلا رمضان تھا. ہفتہ تو جیسے تیسے کاٹ ہی لیتا، ویک اینڈ کے لیے البتہ میں خاصا پرجوش ہوتا. شہر سے دور. کھوکھلے قہقہوں اور مصنوعی سوشل سرکلز سے پرے. فطرت کے قریب. جمعہ کی سہ پہر ڈرائیو کے دوران میں سوچ کر ہی سرشار ہو گیا.
مزے کی بات بتاؤں؟
میں جس دوست کے پاس رہنے جا رہا تھا آپ میں سے کوئی بھی اسے نارمل نہ سمجھے.
سٹینفورڈ کا گریجویٹ، ایک قصبہ نما شہر میں جوتوں کی دکان کھول کر بیٹھ جائے تو آپ کیا سمجھیں گے؟ بندہ لیکن کمال تھا.
دکان کے اوپر تین کمروں کا فلیٹ تھا. ایک کمرے میں خود رہتا تھا، ایک میں کتب خانہ بنا رکھا تھا، اور تیسرے، بڑے کمرے میں چار بچے رہتے تھے. بچے ہمہ وقت دکان کے ملازم بھی تھے، اسکے شاگرد بھی اور لے پالک اولاد بھی. فجر کے بعد صبح نو بجے تک کتب خانے میں حساب اور انگریزی کا مدرسہ چلتا تھا. اس کے بعد دکانداری. ظہر سے عصر کے درمیان دکانداری کا وقفہ ہوتا تھا اور وہ ان سب کو لیکر کوئی اسلامی ادب پڑھتا. میرا تعارف ابن عربی اور مارٹن لنگز سے انہی بچوں کے سبب ہوا. کلیم کی عمر 17 برس تھی اور اس نے اس سال میٹرک کا امتحان دینا تھا. نوید 15 برس کا تھا. شہزاد 14 کا، اور کاشف 11 سال کا. سب سے چھوٹے کاشف کو چھوڑ کر باقی تینوں بچے اس نے سڑک سے لاوارث حالت میں اٹھاۓ تھے. نوید اور شہزاد نے تو آنکھ ہی اسکی گود میں کھولی تھی. نوزائدہ تھے جب اسے فجر سے واپسی پہ کوڑے کے ڈھیر سے ملے تھے. کلیم کا باپ مرگیا تھا اور سوتیلی ماں اپنے دونوں بچوں کو لیکر اپنے آشنا کے ساتھ بھاگ گئی تھی. ان تینوں کی کُل کائنات "جفت ساز" کی یہ چھت ہی تھی. کاشف البتہ لاوارث نہ تھا. فقیروں کا لڑکا تھا. اسکی ماں اسے ساتھ لیکر میونسپل کمیٹی کی ڈسپنسری کے باہر بھیک مانگتی تھی. میرے دوست کی آتے جاتے نظر پڑتی رہتی. ایک دن وہ اس کی ماں سے سودا کر آیا. ماہانہ وظیفہ لگادیا بچے کا جو ماں باپ کے حوالے کر کے اس نے بچے کو اپنی کفالت میں لے لیا. کاشف کو اب دو سال ہو چلے تھے یہاں اور ان سب بچوں میں سے سب سے ہوشیار یہی تھا. میں سوچ کر مسکرا دیا. اب کی بار میں نے اس کے لیے بچوں کا سپیس انسائیکلو پیڈیا لیا تھا. انگریزی میں چالو نہیں ہوا تھا لیکن فزیکس کی طرف اسکا بہت رجحان تھا.
اللہ جانے ولید کے ہاتھ نہ لگتا تو اب تک کیا بن گیا ہوتا. ایسے کتنے ہی بچے ہوں گے اس ملک میں، سڑکوں پر رُلتے، ہماری آنکھوں کے سامنے خاک ہوتے، اور ہم اپنی ڈربی ریس میں اندھادھند دوڑی چلے جا رہے ہیں. سفر کا ہوش نہیں، راستے کا پتہ نہیں اور انجام کی فکر نہیں. مجھے جھرجھری آ گئی.
یہ تو بھلا ہو ارم کا. اس نے مجھے ولید سے ملوا دیا. سال پہلے میں ایک کورس کے سلسلے میں یورپ گیا تو میری ملاقات وہاں ارم اور اسکے شوہر سے ہوئی. انتہائی نفیس لوگ. ایک آرٹسٹ، ایک معاشیات کا ماہر، دونوں اپنے اپنے شعبوں میں پڑھاتے تھے. 6 ہفتے کے دوران ہم اس طرح گھل مل گئے کہ ایک گھر کے فرد لگتے. وہیں مجھے ولید کے بارے میں معلوم ہوا. ارم کی جڑواں بہن ریما، ولید کی یونیورسٹی میں کلاس فیلو تھی. دونوں کی اچھی دوستی تھی. گریجویشن کے بعد ریما کی شادی ہوگئی اور ولید نوکری کے لیے یورپ چلا گیا. ریما کی شادی نہ چل سکی. جسم پر مار پیٹ کے داغ، دامن پر طلاق کا داغ اور کردار پر کیچڑ کے داغ ... دو سال کے اندر اندر لڑکی داغی ہو گئی. ولید انہی دنوں پاکستان لوٹا تھا. گھر میں شادی کا موضوع گرم رہتا تھا. اس نے ریما سے شادی کی خواہش کا اظہار کر دیا. ولید کا خاندان تعمیراتی سامان کے کاروبار میں ملکی سطح پر ایک جانا مانا نام تھا. گھر میں تو سمجھو ایک بھونچال آ گیا. ایک عورت جو طلاق یافتہ بھی ہو، ایک بچے کی ماں بھی ہو، اس کو کیسے وہ اپنے لاڈلے ہونہار بیٹے کی دلہن بنا دیتے. 'اسکی امی نے کہا، میرے بیٹے میں کوئی نقص ہوتا تو میں آپکی طلاق یافتہ بیٹی سے اس کی شادی کا سوچتی بھی. وہ لنگڑا ہے؟ کانا ہے؟ معذور ہے؟' ارم کی آواز کہانی سناتے ہوئے کانپ رہی تھی.
ہم عیبوں کی بارٹر ٹریڈ کرنے والے لوگ ہیں. اس لیے بحیثیت مجموعی ہم ناخوش رہتے ہیں. خوبیاں ڈھونڈیں تو دوسروں میں خوبیاں دِکھیں نا. ہم ڈھونڈتے ہی کمیاں ہیں. اور خود ہماری ذات میں کوئی کجی ہمیں نظر نہیں آتی، سو حساب کبھی برابر بیٹھتا ہی نہیں. ہم اپنے اپنے زعمِ برتری کی صلیب اٹھائے تنہا پھرتے رہتے ہیں.
ریما کیا چاہتی تھیں؟ میں نے ارم سے پوچھا.
'عزت. وہ اتنا تھک گئی تھی وقعت کے ترازو میں اہل پائے جانے کے لیے تُلتے تُلتے کہ اس کو ولید کے نام سے وحشت ہونے لگی تھی.' سال ڈیڑھ سال یہ تماشا چلتا رہا. ولید کے لیے ریما اور والدین کی رضا دونوں اہم تھے. پہلے والدین نہیں مانتے تھے پھر آخر ریما نے انکار کر دیا. وہ ولید سے، اس پورے قضیے سے کوئی واسطہ نہ رکھنا چاہتی تھی. ولید کے والد نے کہا وہ آئیندہ ریما کا نام اپنی زبان پر نہیں لائے گا. ولید مان گیا. حالات اپنے حق میں دیکھ کر انہوں نے اس کا رشتہ اپنے کسی جاننے والے کی بھتیجی سے طے کرنا چاہا تو بات بگڑ گئی. ولید اس پر تیار نہیں تھا. "اگر یہ شادی نہیں کرنی تو ابھی اس گھر سے دفع ہو جاؤ!" انہوں نے شرط رکھی. جانتے تھے حکم عدولی اسکی سرشت میں نہیں. سو اس نے ان کی شرط مان لی. اسی رات گھر چھوڑ دیا.
اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی ارم کے شوہر اسد نے ولید کی سُن گُن رکھی تھی. گنجلک تعلق داری کے باوجود وہ دل سے ولید کو پسند کرتا تھا. اس نے مجھے پتہ دلوا دیا.
"مل اسے جا کر. اور کچھ نہیں تو دنیا کو ایک مختلف لنز سے دیکھنے کا موقع ملے گا."
اور یوں میں ایبٹ آباد ولید سے ملنے چلا آیا تھا.
نامور خانوادے کا چشم و چراغ، فارن کوالیفائیڈ، دکان میں جوتوں پر جھاڑن مارتا نظر آئے تو حیرت تو بنتی ہے نا؟ مزے کی بات یہ ہے کہ میں کتنی ہی مرتبہ یہ منظر دیکھ چکنے کے باوجود حیران ہوتا، اور ولید میری حیرت سے ہر بار محظوظ ہوتا.
"ڈو یو نو، وٹ ایکچوئیلی بودرز یو؟"
(do you know what actually bothers you?)
ایک دن اس نے مسکراتے ہوئے مجھ سے پوچھا تھا.
وٹ؟
(What?)
میں نے کندھے اچکائے.
"دی آئیڈیا دیٹ یور کانسپٹ آف بائینری ڈیفینیشن آف سکسیکس کڈ بی رانگ. دی پاسیبلیٹی دیٹ دئیر کڈ بی آ ہول ورلڈ یٹ ان نون ٹو یو. دیٹ بودرز یو."
(The idea that your concept of binary definition of success could be wrong; the possibility that there could be a whole world yet unknown to you; that bothers you. )
پھر وہ دھیمے سے مسکرایا. "خود کو عاجز سمجھنے سے گھبراتے ہو. اپنے علم کی محدودیت کو قبول کر لینے سے خائف ہو... نہ ڈرو. حیرت اور عاجزی تو ایمان کی بڑی گہری سہیلیاں ہیں. بڑے کام کی چیزیں ہیں."
میں خاموشی سے پشاوری قہوے کی چسکیاں لیتا گیا.
کچھ ماہ پہلے ایک دن اسی موضوع پر پھر بات چھڑ گئی. میں اسکے طرززندگی کو غیر معقول گردان رہا تھا. وہ مجھے ایسے پچکار رہا تھا جیسے کسی بچے سے مخاطب ہو. میں مزید چڑ رہا تھا.
"دیکھو، میں تمہاری بات سمجھ رہا ہوں. اور تم جانتے ہو کہ میں دل سے تمہارے خلوص کا قائل ہوں، اس لیے اس موضوع پر تم سے مکالمہ ہو پاتا ہے. ورنہ اب میں اس بارے میں کسی بحث میں نہیں الجھتا...
تم سمجھتے ہو میں زندگی ضائع کر رہا ہوں. ایسا تم اس لیے سمجھتے ہو کیونکہ
Productive life تمہاری اور میری پروڈکٹو لائف
کی تعریف بہت مختلف ہے. تم کارپوریٹ لائف یا کنزیومراسٹ سوسائٹی کی ریٹ
ریس
(rat race)
کو پروڈکٹیوٹی گردانتے ہو. میں نہیں گردانتا."
"تم کس چیز کو پروڈکٹوٹی کی معراج مانتے ہو؟"
"شکر کی توفیق کو. 'لعلکم تشکرون' کے ایجنڈا کو."
میں بھونچکا رہ گیا. ولید میرے تاثرات سے بے نیاز بولتا چلا گیا ... "سو آئی ڈو وٹ کیپس میں موسٹ الائینڈ ود دیٹ ایجنڈا
(So I do what keeps me most aligned with that agenda). آسائش، امارت، تونگری، اگر شکر کی توفیق کے پیمانے ہوتے تو ایمان لانے والوں میں ہر دور میں امراء سب سے پہلے ہوتے. یہ سب بے معنی سوشل سٹینڈرڈز ہیں. جسٹ ڈو وٹ میکس یو موسٹ گریٹ فل، موسٹ مائینڈ فل آف یور بلیسنگز، موسٹ اویئر آف بینگ الائیو.
(Just do what makes you most grateful, most mindful of your blessings; most aware of being alive!)"
اور پھر اس دن کے بعد میں نے دوبارہ کبھی اسکی چوائس آف لائف پیٹرن پر اعتراض نہیں کیا تھا. میں نناوے کے چکر میں پھنسا ایک دنیادار... میں نے کونسا شرابِ تشکر چکھی تھی جو اسکے سرور پر شک کرتا.
(binary-ism)یوں انجانے میں ہی میرے بتانِ بائینریـازم
میں تریڑ پڑنے لگی. وہ کیا بھلی بات کہہ گئے ہیں جمال احسانی:
یہ بات تیرے عشق نے سمجھائی کہ دنیا
کچھ اور ہے محروم و میسر کے علاوہ
میں گہرائی نہیں رکھتا. میرے دکھ سکھ، لاگ لگاؤ، وسوسے اور یقین نما گمان، سب چھلکتے پھرتے ہیں. سو اب جہاں گہرائی کا امکان نظر آ رہا تھا، میں نے ڈیرے ڈال دیے تھے. کچھ نہ کچھ فیض ہاتھ لگ ہی جائے گا. امید بھی تو ایمان کا ہی ایک درجہ ہے نا!
عین مغرب کے وقت میں جفت ساز پہنچا. افطار کا دسترخوان لگ رہا تھا. حاجرہ بی بی ایک فالتو بندے کو دسترخوان پہ دیکھ کر بالکل بدمزہ نہ ہوئیں. بڑی کام کی خاتون ہیں حاجرہ بی بی. شروع میں ہی ولید کو مل گئی تھیں. انکا شوہر موچی تھا. ولید نے اسکو دکان پر ملازم رکھ لیا اور بی بی کو گھرداری سونپ دی. بی بی کچھ سال بعد بیوہ ہوگئی، لیکن یہاں انکی روزی روٹی کا وسیلہ یوں جڑا تھا کہ آج تک قائم تھا. بی بی کی بیٹی کی شادی پچھلے سال ہی ہوئی تھی. بیٹا نسٹ میں پڑھ رہا تھا.
انہوں نے بڑے پیار سے مجھے پوچھا. کھجور اور شربت سے روزہ کھولا. تازہ چپاتی اور اروی گوشت کا مزہ ہی اور تھا. تھوڑی دیر بعد میں پاؤں پسارے نیند سے چور تھا. بچے سب خوشی خوشی اپنی کتابیں لیکر جا چکے تھے.
بس کاشف کا انسائیکلو پیڈیا رہ گیا تھا.
"کاشف نظر نہیں آیا. گھر گیا ہے ملنے؟" میں نے پوچھا.
"گھر نہیں گیا. گھر والوں کے ساتھ گیا ہے." ولید نے رسان سے جواب دیا.
"کہاں؟"
"لاہور."
"ہیں؟" میں اٹھ بیٹھا تھا. "کیوں؟"
"رمضان میں جاتا ہے ہر سال."
"لاہور ہے یا مکہ مدینہ جو رمضان میں ثواب کمانے جاتا ہے خاندان؟"
ولید مسکرا دیا.
"ثواب نہیں کمانے جاتا. بس کمانے جاتا ہے. عید سے پہلے. ہر سال یہ ایک مہینہ کاشف گھر والوں کے ساتھ لاہور جاتا ہے."
عجیب مصیبت ہے ولید سے کوئی جواب اگلوانا. اب میں نے سیدھا سوال پوچھا، "کیا کرتے ہیں لاہور جا کر؟"
"بھیک مانگتے ہیں." اسی سکون سے جواب آیا.
چند لمحے خاموشی سے رینگ گئے.
"تم جانے دیتے ہو؟" میں نے بے یقینی سے پوچھا.
ہم کھلے آسمان تلے، چھت پر چارپائیوں پر لیٹے تھے. ولید نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے لمبا سا ہنکارا بھرا.
"کیوں؟ "، میں نے پوچھا.
وہ میری طرف کروٹ لے کر بتانے لگا.
"بہت سی وجوہات ہیں... اول، وہ اس کے والدین ہیں، اور میری پسند، ناپسند سے زیادہ انکی رضا کا وزن ہے. میں اس کا استاد ہوں. میں اسکے لیے کیسے رشتوں کو آزمائش بنا دوں؟ جو استاد علم حاصل کرنے والے کا ادب کر نہ سکے، وہ خاک استاد ہوا!
دوم، میرا کام اس بچے کو اجازت دینا، نہ دینا نہیں ہے. میرا کام اس کو اپنا فیصلہ خود کرنے کی سٹیج تک پہنچنے کے لیے شعور فراہم کرنا ہے. وہ میں اپنے تئیں کر رہا ہوں.
اور سوم، میرا اندازہ اگر غلط نہ ہوا، تو یہ کاشف کا آخری ایسا پھیرا ہے." اندھیرے میں بھی اسکے لہجے میں مسکراہٹ کی جھلک دِکھ رہی تھی.
"تمہیں کیسے پتہ ہے؟"
"اس لیے کہ اب کی بار وہ صرف اس لیے گیا ہے کیونکہ اس سے انکار ہو نہیں پا رہا تھا. اس کا دل نہیں مان رہا تھا. دماغ نہیں اجازت دے رہا تھا. لیکن ابھی اپنی رائے، اپنی دلیل پر بھروسا نہیں تھا اسے. مجھے ہے. اگلے سال خیر سے بارہ برس کا ہوگیا ہو گا. میرے رب کا کرم شاملِ حال رہا تو اگلے سال یہ اپنے بہن بھائیوں کو بھی روک لے گا."
"اتنا یقین؟" میں اسکے فخریہ لہجے پر مسکرا اٹھا تھا.
"بات میرے یقین کی نہیں، اللہ کی رضا کی ہے. اور اللہ کی رضا سے مجھے بڑی امید ہے. کاشف ماشاء اللہ بہت روشن ہے. اللہ بھاگ لگائے گا اسے.
تمہیں پتہ ہے میں نے اسکے ساتھ جانے سے پہلے ایک گفتگو کی. آداب کے بارے میں."
"مانگنے کے آداب؟"
"نہیں. سوالی کو جواب دینے کے آداب. بات رولز آف بزنس سمجھنے کی ہے نا. سو میں نے اس سے کہا، بیٹے جو مرضی کرو. لیکن کرو طریقے سے. سلیقہ نظر آنا چاہیے."
"مانگنے کا سلیقہ؟" میں ہنس پڑا.
"ٹرانزیکشن کا سلیقہ. مانگنے کے آداب کے بارے میں وہ مجھے سکھائے گا واپس آ کر.
ابھی میں نے بریفنگ دی ہے. سو دیٹ ہی انڈرسٹینڈز
(So that he understands)
کہ جس سے وہ انگیج کر رہا ہے اپنی ٹرانزیکشن میں، وہ ورتھ وائل (worthwhile)
ہے بھی یا نہیں."
"واہ ... کیا شاہانہ اپروچ ہے! گداگری میں بھی آپ نے ریونیو ماڈل بنا لیا ہے." میں نے اسکی ڈگری کے حوالے سے چوٹ لگائی.
ولید کی آنکھیں اندھیرے میں چمک اٹھیں.
"بس اسے ورتھ وائل ٹرانزیکشنز کی پہچان ہو جائے!"
"اینلائیٹن می!" (Enlighten me!)
ولید چارپائی پر چوکڑی مار کر بیٹھ گیا.
"جب ہم کسی سے بھیک مانگتے ہیں نا، یا
سوال کرتے ہیں، کوئی حاجت پیش کرتے ہیں، یا کوئی درخواست کرتے ہیں، تو دراصل ہم مرتبوں کے باہمی فرق کو ایکنالج
(acknowledge)
کر رہے ہوتے ہیں. ہم اصرار کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم من چاہی نعمت کے کم تر مقام پر ہیں اور دوسرا برتر مقام پر ہے. دوسرے کی برتری اس مقام پر ہم سے اس قدر زیادہ ہے کہ وہ اپنی برتری میں عطا کر دینے کے درجے تک پہنچا ہوا ہے، اور یہ کہ عطا کر دینے سے اسکی شان میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی. اور ہم اس سے یہ یقین رکھتے ہیں کہ جب ہم اپنا ہاتھ اس کے آگے پھیلائیں گے تو وہ ہماری ضرورت پوری کرے گا.
یہ ہے پہلا باب.
اب جس سے سوال کیا گیا ہے وہ اس یقین کو کس طرح سرہاتا ہے. اسکی قدرت اور ظرف دونوں کا امتحان ہوتا ہے یہاں. بہت سے لوگ عطا کی قدرت نہیں رکھتے، پر ظرف رکھتے ہیں. بہت سے ایسے ہیں جو قدرت رکھتے ہیں مگر ظرف سے محروم ہیں. بہت سے دونوں سے محروم ہیں."
"اور انکا کیا وہ جو دونوں قدرت اور ظرف رکھتے ہیں؟" میں نے بیچ میں ٹوکا.
"ان سے تو سوال کیا ہی نہیں جاتا. انہوں نے بِن کہے اپنے ذمے عطا لے رکھی ہوتی ہے. سوال تو آزمائش ہے. امتحان ہے. بے خبر کو ہوشیار کرنے والی گھنٹی ہے. جاگو! خبردار ہو! تم سے امید لگائی گئی ہے، تمہیں قابل سمجھا گیا ہے.
اب جو قدرت نہیں رکھتا پر ظرف رکھتا ہے، وہ قابلیت کے اس دعوت نامے پر عاجزی سے دوہرا ہو جائے گا. عطا کرنے کا موقع ہو، اور عطا کی توفیق نہ ہو، بھلا اس سے بڑی اور کیا کم نصیبی ہو سکتی ہے؟ آپ مالک کی نقل کر سکتے تھے، نہیں کر پا رہے. وائے محرومی! سو وہ کسرِ نفسی سے خود کو اس سچویشن سے منہا کرتا ہے. معذرت طلب کرتا ہے. شرمسار ہوتا ہے. اپنے چھوٹا پڑ جانے پر نادم ہوتا ہے. اسے برتر مانا گیا، صرف یہی احساس عاجزی کا سوتا بن جاتا ہے."
"جو قدرت رکھتے ہیں مگر ظرف سے محروم ہیں، وہ کیا کرتے ہیں پھر؟"
"فیل ہو جاتے ہیں. دے کر بھی فیل ہو جاتے ہیں، روک کر بھی فیل ہو جاتے ہیں. جو نخوت سے عطا کر دیتے ہیں، سوالی کا سوال پورا کر دیتے ہیں، وہ اس پوری ٹرانزیکشن کو اور اسکا پروٹوکول سمجھے بغیر، اس سچویشن میں اپنے کردار کو سمجھے بغیر موقع ضائع کر دیتے ہیں. وہ یہ درک کر ہی نہیں پاتے کہ انکو دینے کی توفیق دیکر، اوپر والے نے ان پر نوازش کی ہے، بندگی کا در کھولا ہے. وہ اپنی بےنیازی کی دھن میں اتنے مگن ہوتے ہیں کہ کس وقت تکبر کی پٹڑی پر چڑھے، انہیں پتہ ہی نہیں چلتا. سو انکا دینا بھی انکی چارج شیٹ کا حصّہ بن جاتا ہے.
رہ گئے وہ جو جھڑک کر دینے سے انکار کر دیتے ہیں، انکا لہجہ انکے تکّبر کی گواہی بن جاتا ہے."
"ہمممم ... اچھا اب وہ والی ٹائپ رہ گئی جو قدرت سے بھی محروم ہے اور ظرف سے بھی. اسکا کیا ہوتا بنتا ہے؟"
"میرے والا حال!" ولید عجیب سے پر تاسّف انداز میں مسکرایا. "جو لوگ کسی بھی ٹرانزیکشن میں نہ دینے کی قدرت رکھتے ہیں نہ ظرف، وہ دوسرے انسان کے لیے سب سے بڑی آزمائش بنتے ہیں. اور وہ انسان جو دوسرے انسان کے لیے آزمائش بن جائے، اسکا کیا بننا ہے؟ یہ شیطان کا وعدہ تھا انسان کو رب کی راہ سے بھٹکانے کا. اگر اپکا طرزعمل ایسا ہو کے آپ کی وجہ سے کوئی شکرانے کی کیفیت سے دور ہو جائے، آپکی وجہ سے رب سے ناخوش ہو جائے، تو بندیا توں تے کھیہ کھٹی فیر دنیا اچ، لخ لعنت ایہو جے جیون تے."
"کیا مطلب؟" کچھ نیند کا غلبہ تھا کچھ یہ احساس کے بات کی نوعیت بدل گئی ہے، میں نے ہونقوں کی طرح پوچھا.
"بات بہت سادہ ہے یار ... بات یہ ہے کہ جب کوئی سوال کرے یا آپ سے امید باندھ لے تو اس نے آپ کو ایک مرتبہ عطا کر دیا ہے. اب اگر آپ میں اس مرتبے کے مطابق دینے کی استطاعت نہیں ہے یا حالات اجازت نہیں دیتے تو
short coming
آپ کے
end
پر ہے. اس بات کا احساس سر کو جھکا دینا چاہئیے. اگلے نے آپ کو داتا مانا ، آپ کی پہنچ آپ کو داتا بننے کی اجازت نہیں دیتی. فائن. عاجزی سے، شرمساری سے اپنا آپ چھوٹا پڑنے پر معذرت طلب کر لینی چاہئیے. محدود ثابت ہونے والے کے پاس شرمندہ ہونے کے علاوہ کیا چارہ ہے؟ شیطان آدم کو سجدہ کرنے کے معاملے پے چھوٹا پڑ گیا تھا پھر اکڑ گیا اپنے ظرف کی تنگی پر. دے سکنے کی سکت ہونا، نہ ہونا قابلِ گرفت نہیں ہے، دے سکنے یا نہ دے سکنے کو اپنی انا کی تسکین کے لیے استعمال کرنا قابلِ گرفت ہے.
جو دیتے ہوئے شکر گزار نہ ہو، اور منع کرتے ہوئے شرمسار نہ ہو، ایسی ٹرانزیکشن ورتھ وائل نہیں. یہ سمجھایا تھا میں نے کاشف کو.
اتنا سمجھ لے گا تو انشاء اللہ ورتھ وائل ٹرانزیکشنز کرنے والے رب کو بھی پہچان لے گا."
ہم دونوں کے درمیان خاموشی بوگن بیلیا کی بیل کی طرح پھیل گئی.
"کاشف کو سمجھ آ گئ ہیں یہ باتیں؟" چند لمحوں بعد میں نے پوچھا.
"شاید." وہ چادر اوڑھ کر لیٹ گیا. "علم کے اولین اسباق میں سے ایک توقف ہے. سمجھ، دانائی، ہوشمندی، قیام کے ساتھ مشروط ہیں. اگر آگے بڑھنے کوسرپٹ بھاگے گا نہیں، تو انشاء اللہ کامیاب رہے گا.
ٹھہراؤ شرط ہے بندگی کی. اور بندگی ہی تو زندگی ہے."
"عجیب بندے ہو!" میں نے پیار سے اس کھچڑی سر والے ولید کو دیکھا جس کو سمجھنا میرے بس سے باہر تھا.
ولید ہنس پڑا. "تم اگر انسانوں کا کھوج لگانے کی خواہش کو ایک لمحے کو سائڈ پر رکھ چھوڑو تو تمہارا بوجھ بہت ہلکا ہوجائے گا. کریدنے کے لیے کائنات کا نظام ہے. انسان کو کیا کھوجنا؟"
"انسان کو نہ کھوجوں تو پھر کیا کروں؟"
"انسان سے صلہء رحمی کرو، اسکی ذات سے بےنیاز ہو کر. معبود نے جس تخلیق کو عبد کا سٹیٹس دے دیا، تم میں کون ہیں اس میں ٹوہ رکھنے والے؟ اپنا کام تو صرف بندگی ہے. ان کنڈیشنل سبمشن ہے.
(unconditional submission)
سبمٹ کر دینے سے ہی تو زندگی میں رومانس پیدا ہوتا ہے."
میں ایبٹ آباد کے تاروں بھرے آسمان کو دیکھتا رہا. نوری سال کے فاصلے پر دمکتے ان تاروں کی روشنی کیا اتنا سفر کرپاتی ہے جتنا قیام کا مرتبہ سمجھ لینے والی روح؟ کیا یہ تارے اتنے ہی روشن ہیں جتنی معبود کے سامنے سپردگی سے سرشار روح؟
کیا میری روح اس ورتھ وائل ٹرانزیکشنز والے رب کو کبھی پہچان پائے گی؟
کون جانے! کون جانے.
No comments:
Post a Comment